!
اور ایمان والے شاعر بدلہ ’’وانتصروا من بعد ماظلموا‘‘ لیتے ہیں جب ان پر ظالم ظلم کرتا ہے۔
نظم حقانی مسی بہ سرائر کادیانی
یا رب نہ غرور خوش بیانی پر ہو
کچھ فخر نہ دل میں نکتہ دانی پر ہو
موجود جو کچھ ہو تیری بخشش سمجھوں
جو آس ہو تیری مہربانی پر ہو
یہ آنکھ جو فیض آسمانی پر ہو
امید خدا کی مہربانی پر ہو
کاغذ کا یہ صفحہ ہو سپر میرے لئے
خامہ مرا حربہ کادیانی پر ہو
دجال کے حق میں گو فضیحت ہے یہ
چیلوں کے لئے مگر نصیحت ہے یہ
سچ بات سے کیوں ہو کادیانی کو رنج
کچھ ہجو نہیں اس کی مدیحت ہے یہ
سعدی سے خفا نہ کادیانی ہونا
دور ازرہ بغض وبدگمانی ہونا
سچ کہتا ہوں سن کے آگ مت بن ظالم
لازم تجھے شرم سے ہے پانی ہونا
جفار ہے یا تو کادیانی رمال
مدت سے سمجھ چکے ہیں تیری ہم چال
یہ پیشہ ہے روسیاہ تجھ کو کرتا
دشنام ہمیں نہ دے مثیل الدجال
تاثیر ہوئی یہ کادیانی تیری
چیلوں نے جو سیکھی بدزبانی تیری
سعدی کو غرض نہیں اذیٰ سے ان کی
اس کو تو فقط ہے گت بنانی تیری
M!
کادیانی رافضی بے پیر ہے
کفر اس کی آج کل جاگیر ہے
کرنا اصحاب نبی پر اتہام
کل سلف پر اس کا بدظنی ہے کام
لکھتا ہے نواسؓ کے حق میں خبیث
ہے وہ بانی مبانی حدیث
جس میں ہے ذکر نزول عیسوی
قاتل دجال یک چشم غوی
تھی نہ کچھ گنجائش تاویل یاں
کھول دی طعن صحابی پر زبان
کادیانی کی سنو اک اور لاف
ہے یہ مرویات دیگر سے خلاف