نے اس معنی پر جس کو ہم نے صحیح اور حق لکھا ہے۔ (ازالہ اوہام ص۳۶۸،۳۶۹، خزائن ج۳ ص۲۸۹) میں چار اعتراض کئے ہیں۔ ان سب کا مسکت جواب بفضلہ تعالیٰ ہمارے پاس موجود ہے۔
اعتراض اوّل: آیت موصوفہ بالا صاف طور پر فائدہ تعمیم کا دے رہی ہے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اہل کتاب کے لفظ سے تمام وہ اہل کتاب مراد ہیں۔ جو مسیح کے وقت میں یا مسیح کے بعد برابر ہوتے رہیں گے اور آیت میں ایک بھی ایسا لفظ نہیں جو آیت کو کسی خاص محدود زمانے سے متعلق اور وابستہ کرتا ہو۔ فقط:
جواب اس کا بدووجہ ہے۔
اوّل… یہ کہ آیت میں نون تاکید ثقلیہ موجود ہے۔ جو آیت کو خاص زمانہ مستقبل سے وابستہ کرتا ہے۔
دوم… یہ کہ اس تعمیم کے موافق آپ کے معنی اوّل جو ازالہ اوہام میں لکھے گئے ہیں، بھی باطل ہو جاتے ہیں۔ کیونکہ آپ کے نزدیک لفظ اہل کتاب کا آیت موصوفہ میں ان سب اہل کتاب کو بھی شامل ہے جو مسیح کے وقت میں ان کو صلیب پر چڑھانے سے پہلے موجود تھے۔ حالانکہ ان کا بیان مذکورہ بالا پر ایمان رکھنا قبل اس کے کہ وہ اس پر ایمان لاویں کہ مسیح اپنی طبعی موت سے مر گیا۔ غیرمتصور ہے اور ایسا ہی آپ کے دوسرے معنی بھی باطل ہوئے جاتے ہیں۔ ’’وہذا غیر خفی علی من لہ ادنی تامل‘‘
اعتراض دوم
احادیث صحیحہ بآواز بلند پکار رہی ہیں کہ مسیح کے دم سے اس کے منکر خواہ اہل کتاب یا غیراہل کتاب کفر کی حالت میں مریں گے۔
جواب اس کا بدوجہ ہے:
اوّل… یہ کہ آیت میں کہیں تصریح اس امر کی نہیں ہے کہ مسیح کے آتے ہی سب اہل کتاب مسیح پر ایمان لے آویں گے۔ بلکہ آیت میں تو صرف اسی قدر ہے کہ مسیح کی موت سے پہلے ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ اس زمانہ کے سب اہل کتاب ان پر ایمان لے آویں گے۔ پس ہو سکتا ہے کہ جن کفار کا علم الٰہی میں مسیح کے دم سے کفر کی حالت میں مرنا مقدر ہو۔ ان کے مرنے کے بعد سب اہل کتاب ایمان لے آویں۔
دوم… ہو سکتا ہے کہ مراد ایمان سے یقین ہو نہ ایمان شرعی۔ جیسا کہ آپ کے دونوں معنی کے موافق ایمان سے مراد ایمان شرعی نہیں ہے بلکہ یقین مراد ہے۔