اوّل وہ جو عامہ تفاسیر میں منقول ہے کہ موتہ کی ضمیر کتابی کی طرف عائد ہے اور معنی یہ ہیں کہ نہیں کوئی اہل کتاب میں سے۔ مگر البتہ ایمان لاتا ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر اپنے مرنے سے پہلے یعنی نزع روح کے وقت اس تقدیر پر لیؤمنن کا خالص استقبال کے لئے نہ ہونا ظاہر ہے۔ اس لئے یہ معنی باطل ہیں۔
دوسرے معنی وہ ہیں جو مرزاقادیانی نے کشفی طور پر (ازالہ اوہام ص۳۷۲، خزائن ج۳ ص۲۹۱) میں لکھتے ہیں۔ جس کا حاصل یہ ہے کہ:
ہر اہل کتاب ہمارے اس بیان مذکور بالا پر جو ہم نے اہل کتاب کے خیالات کی نسبت ظاہر کیا ہے۔ ایمان رکھتا ہے۔ قبل اس کے کہ وہ ایمان لاوے کہ مسیح اپنی موت سے مرگیا۔ فقط: یہ معنی بھی، بسبب اس کے کہ اس تقدیر لیؤمنن خالص استقبال کے لئے نہیں رہتا ہے۔ باطل ہیں اور اس معنی کشفی کے بطلان کے اور بھی وجوہ ہیں۔ مگر ان کو اس بحث سے علاقہ نہیں ہے۔ اس لئے ہم ان کو یہاں بیان نہیں کرتے۔ انشاء اﷲ تعالیٰ ان وجوہ کا ذکر ازالہ اوہام کے رد میں بہ بسط بسیط کیا جائے گا۔
تیسرے وہ معنی ہیں جو مرزاقادیانی نے (ازالہ اوہام ص۳۸۵، خزائن ج۳ ص۲۹۸) میں لکھے ہیں۔ وہ یہ ہیں کہ:
مسیح تو ابھی مرا بھی نہیں تھا کہ جب سے یہ خیالات شک وشبہ کے یہود ونصاریٰ کے دلوں میں چلے آتے ہیں۔ فقط:
یہ معنی بھی اسی وجہ سے باطل ہیں کہ لیؤمنن اس تقدیر پر خالص استقبال کے لئے نہیں رہتا۔ بلکہ ماضی کے لئے ہو جاتا ہے۔
چوتھے وہ ہیں جو مولوی ابویوسف محمد مبارک علی سیالکوٹی۔ مرید مخلص مرزاقادیانی نے (القول الجمیل ص۲۸) میں لکھے ہیں۔ وہ یہ ہیں:
اور ان اہل کتاب میں سے ہر ایک شخص کے لئے ضروری ہے کہ اس بات کو اپنے مرجانے سے پیشتر ہی تسلیم کرے۔
اس عبارت کا مطلب اگر یہ ہے کہ ان اہل کتاب میں سے ہر ایک شخض کو چاہئے کہ اس بات کو اپنے مرنے سے پہلے ہی تسلیم کرے۔ یعنی یہ جملہ انشائیہ ہے۔ جیسا کہ بعض عبارات القول الجمیل اس پر قرینہ ہے تو اس معنی کے غلط ہونے کی یہ وجہ ہے کہ صاحب القول الجمیل اس