بنی اسرائیل کے پہلے رکوع میں ہے: ’’وقضینا الیٰ بنی اسرائیل فی الکتاب لتفسدن فی الارض مرتین ولتعلن علوا کبیراً (الارائ:۴)‘‘
سورۃ حج کے چھٹے رکوع میں ہے: ’’ولینصرن اﷲ من ینصرہ ان اﷲ لقوی عزیز (الحج:۴۰)‘‘
سورہ نور کے ساتویں رکوع میں ہے: ’’وعداﷲ الذین آمنوا منکم وعملوا الصالحات لیستخلفنہم فی الارض کما استخلف الذین من قبلہم ولیمکنن لہم دینہم الذی ارتضی لہم ولیبد لنہم من بعد خوفہم امنا (النور:۵۵)‘‘
سورہ نمل کے دوسرے رکوع میں ہے: ’’لاعذبنہ عذابا شدیداً اولاذبحنہ اولیاتینی بسلطان مبین (النمل:۲۱)‘‘
سورۃ عنکبوت کے ساتویں رکوع میں ہے: ’’والذین جاہدوا فینا لنہدینہم سبلنا (عنکبوت:۶۹)‘‘
سورہ محمد کے ۴رکوع میں ہے: ’’ولتعرفنہم فی لحن القول (محمد:۳۰)‘‘
سورہ تغابن کے پہلے رکوع میں ہے: ’’قل بلی وربی لتبعثن ثم لتنبئون بما عملتم (تغابن:۷)‘‘
سورہ انشقاق میں ہے: ’’لترکبن طبقاً عن طبق (شقاق:۱۹)‘‘
اگر مرزاقادیانی ایک آیت یا ایک حدیث یا کوئی کلام عرب عرباء کا ایسا پیش کریں کہ اس میں نون تاکید حال یا ماضی کے لئے یقینی طور پر آیا ہو تو کوئی عبارت کتاب نحو کی جس میں تصریح اس امر مذکور کی ہو، تو میں اپنے اس مقدمہ کو غیرصحیح تسلیم کرلوں گا۔
بعد اس کے تمہید کے میں کہتا ہوں کہ لفظی ترجمہ اس آیت کا یہ ہوا۔
اور نہیں ہوگا اہل کتاب میں سے کوئی۔ مگر البتہ ایمان لاوے گا ساتھ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پہلے مرنے حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے۔
اور حاصل ترجمہ یہ ہے کہ آئندہ زمانے میں ایک ایسا زمانہ آنے والا ہے کہ سب اہل کتاب اس میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے مرنے سے پہلے ایمان لاویں گے۔ یہی ایک معنی اس آیت کے موافق محاورہ عرب وقواعد نحو اور محاورہ کتاب وسنت کے صحیح ہیں اور اس کے ماعدا۱؎ جتنے معنی ہیں سب غلط اور باطل ہیں۔ کیونکہ کسی معنی کی بناء پر لیؤمنن کا لفظ خالص استقبال کے لئے نہیں باقی رہتا۔ وہ چار معنی ہیں۔