مرزاصاحب نے ایک معترض کا قول بطور اعتراض کے نقل فرماتے ہیں کہ مسیح موعود کی جو نشانیاں مثل خروج یاجوج وماجوج اور طلوع الشمس من مغربہا وغیرہ ہے وہ تو ابھی واقع ہوئی ہی نہیں۔ پھر جب کہ امارات مقدمہ مسیح واقع نہیں ہوئیں تو مرزاصاحب مسیح موعود کیونکر ہوسکتے ہیں۔ پس یہ معترض کی غلطی ہے کہ طلوع الشمس من مغربہا کو مسیح کے پہلے اور مقدم سمجھ کر اس نے اعتراض کیا ہے۔ پس معترض کے قول کی غلطی مرزاقادیانی پر عائد نہیں ہوسکتی۔ کیونکہ مرزاصاحب نے تو اپنے قول میں کہیں نہیں فرمایا کہ طلوع الشمس من مغربہا ہوچکا۔ ہاں مرزاصاحب اس اعتراض کے جواب میں یوں تحریر فرماتے ہیں کہ ’’فاعلم ان ہذاہ الا نباء قدتمت کلہا ووقعت الیٰ آخرہ‘‘ ظاہر ہے کہ الف لام لفظ الانباء جو عہد کا ہے خواہ وہ عہد ذہنی آپ اس کو تسلیم کریں یا عہد خارجی اور استغراقی مانیں۔ جیسے کچھ آپ اس لام کی نسبت فرماویں اور نیز چونکہ ذکر انہیں نشانوں کا ہے جو متنازعہ فیہا مقدمات مسیح سے ہیں۔ یعنی وہ علامات جو مسیح سے پہلے واقع ہونی ضرور ہیں نہ ان نشانیوں کا ذکر ہے جو متصل قیامت کے باتصال حقیقی واقع ہوں گے تو مراد الانباء معرف بلام اور لفظ ہذہ اسم اشارہ متوسط سے وہی خبریں مراد ہوسکتی ہیں جو کہ امارات مقدمہ مسیح کی ہوویں۔ نہ دیگر علامات متصلہ قیامت کیونکہ ان میں تو بحث ہی نہیں ہے اور اسی مطلب کو بہت تائید کے ساتھ خود سائل صاحب سمجھ سکتے ہیں۔ کیونکہ حضرت مرزاصاحب نے جواب تفصیلی اسی سوال میں جو شرح اور بسط فرمائی ہے اس میں اور علامات مقدسہ مسیح کا وقوع تو بیان کیا ہے۔ لیکن طلوع الشمس من مغربہا کی نسبت ایک حرف تک نہیں لکھا اور اگر کہا جاوے کہ جواب تفصیلی میں حضرت مرزاصاحب نے معترض کو کیوں نہیں یہ تنبیہ کی، کہ تونے یہ علامت مسیح سے مقدم کیوں گردانی اور اپنے اعتراض میں کیوں اس کو ذکر کیا۔ کیونکہ وہ علامت مسیح سے پہلے انتہاء کو نہیں پہنچ چکی تو واضح ہو کہ حضرت مرزاصاحب مثل معلمین اطفال کے کوئی میانجی نہیں ہیں کہ معترض کے قول میں جو جو اغلاط واقع ہوں ان سب کو تعلیم فرمایا کریں۔ ہاں جو امور متنازعہ فیہا میں یعنی وہ نشانیاں جو مسیح سے پہلے واقع ہونی چاہئیں۔ ان کا بیان فرمادیاہے۔ مرتبہ اجمال میں اس طرح پر کہ الف لام عہد سے وہ جملہ اور کل پیشین گوئیاں جو مسیح سے پہلے ہونی چاہئیں ذکر فرمائیں۔ جس کی طرف الف لام عہد کا اور اشارہ متوسط ہذہ دلالت کرتا ہے اور جواب تفصیلی میں بھی وہی پیشین گوئیاں معہ اپنے اسرار اور معارف کے بیان کیں جو مسیح سے پہلے ہونی ضرور تھیں۔ لیکن طلوع الشمس من مغربہا کا کہیں ذکر نہیں کیا۔ یہ اعتراض قلت تدبر سے پیدا ہوا ہے کہ اگر بنظر امعان نظر وانصاف دیکھا جاوے تو کبھی یہ شبہہ پیدا نہ ہو۔ مورخہ ۲۵؍جولائی ۱۸۹۵ء الراقم محمد احسن (قادیانی)