خلاف اس حدیث نبوی کے کوئی حدیث آپ دکھلا دیتے۔ مولوی خلیل الرحمن بھی مسجد میں نماز عصر پڑھ رہے تھے۔ نماز سے فارغ ہوکر وہ بھی تشریف لے آئے۔ مولوی احسن قادیانی نے مولوی خلیل الرحمن کی طرف متوجہ ہوکر کہا کہ آپ لوگ اجازت ایک گھنٹہ کی کیوں نہیں دیتے ہیں اور رہی یہ بات کہ الحمد شریف پڑھنے اور وعظ کہنے سے جو روکتے ہیں تو میں سو دفعہ الحمد شریف پڑھوں گا یا تو تحریری یا تقریری مباحثہ منعقد کیا جاوے۔ اس وقت حدیثیں پیش کروں گا۔ بجواب اس کے مولوی احمد علی صاحب نے فرمایا کہ اوّل یہ وعدہ ہوچکا تھا کہ تحریر اور تقریری مباحثہ طول نہیں ہوگا۔ جیسے میں نے حدیث نبوی اور تحریر مرزاقادیانی دکھادی۔ اسی طرح خلاف حدیث نبوی کے کوئی حدیث آپ دکھا دیں۔ اس وقت دوبارہ جلسہ منعقد ہوسکتا ہے۔ اسی درمیان میں مولوی خلیل الرحمن سے مولوی احسن قادیانی نے فرمایا۔ چانکہ آپ سے اس شبہ کے بارہ میں میری خط وکتابت پیشتر ہوچکی ہے۔ اس گفتگو کا آپ ہی فیصلہ کیجئے۔ چنانچہ اس وقت سے تحریری گفتگو مولوی خلیل الرحمن سے کہ جس کا پرچہ علیحدہ تحریر ہوگا۔ شروع ہوئے۔ تیسرا سوال مولوی خلیل الرحمن صاحب نے تحریر فرمالیا تھا کہ وقت نماز مغرب ہوا اور حاضرین برخاست ہوئے اور مولوی خلیل الرحمن صاحب نے سوال لکھ کر مولوی احسن قادیانی کو دے دیا اور فرمایا کہ اب وقت جواب لکھنے کا نہیں رہا۔ مکان پر لیتے جائیے۔ جواب لکھ کر بھیج دیجئے گا۔ مورخہ ۲۵؍جولائی ۱۸۹۵ء
۲۶؍جولائی ۱۸۹۵ء کو بجواب خط مولوی احسن قادیانی کے مولوی احمد علی صاحب نے خط لکھا کہ جس کا مضمون ذیل میں درج ہے تابعدار لے کر مولوی احسن قادیانی کے پاس گیا کچھ جواب نہیں دیا واپس چلا آیا۔
بسم اﷲ الرحمن الرحیم!
مکرم بندہ مولوی احسن قادیانی السلام علیکم! بجواب آپ کے خط کے عرض ہے کہ آنجناب نے جو دوروز کے جلسہ میں تقریر فرمائی اس کا حسن وقبح تمام حاضرین جلسہ پر ظاہر ہوگیا۔ جس امر کا آپ نے وعدہ فرمایا تھا اس کو آپ نے پورا نہیں کیا۔ یعنی حدیث شریف یا قرآن مجید سے یہ ثابت نہیں فرمایا کہ بعد طلوع الشمس من مغربہا کے بھی ایمان نفع دے گا۔ وعظ فرمانا شروع کر دیا کہ جس سے عام لوگوں کے خیال مطلب اصلی سے ہٹ جاویں اور شام ہو جاوے۔ مولانا صاحب وعظ اپنے محل پر مناسب ہے نہ کہ ہر جگہ پھر جوامر چند جملوں سے طے ہوسکتا ہو اسے طول دینے سے کیا فائدہ۔ یعنی سوال دیگر جواب دیگر۔ میں ہر طرح اس وقت بھی تیار تھا اور اب بھی ہمہ