M
نحمدہ ونصلے علیٰ نبیہ ورسولہ خاتم النبیین محمد واٰلہ واصحابہ اجمعین!
۱۹؍جولائی ۱۸۹۵ء کو مولوی احمد علی صاحب جو بغرض وصول چندہ پہاڑ پر مقیم تھے۔ ڈہرہ دون میں تشریف لائے تھے اور ۲۰؍جولائی ۱۸۹۵ء کو مولوی احسن قادیانی سہارنپوری سے پیر جی خدابخش صاحب کے مکان پر تشریف لائے۔ ۲۱؍جولائی ۱۸۹۵ء بو قت ۴؍بجے شام کے یہ خاکسار ومحمد حنیف خلف خدابخش صاحب واحمد حسین ملازم وجناب مولوی احمد علی صاحب اوپر دوکان پیر جی صاحب کے بیٹھے ہوئے تھے کہ مولوی احسن قادیانی، پیر جی صاحب کے مکان سے دوکان پر تشریف لائے اور السلام علیکم وعلے من لدیکم! مولوی احمد علی صاحب سے ہوا اور بیٹھ گئے اور ادھر ادھر کی گفتگو ہوتی رہی کہ مولوی احسن قادیانی نے مولوی احمد علی صاحب سے دریافت کیا کہ آپ مرزاغلام احمد قادیانی سے ملے ہیں یا نہیں۔ بجواب اس کے مولوی احمد علی صاحب نے فرمایا کہ میں حمایت الاسلام امرتسر میں گیا تھا۔ مرزاقادیانی بھی وہاں تشریف رکھتے تھے۔ مگر میری ملاقات نہیں ہوئی۔ اگلے روز مرزاقادیانی لدھیانہ تشریف لے گئے تھے۔ بجواب اس کے مولوی احسن قادیانی نے کہا کہ مرزاقادیانی قابل ملاقات ہیں۔ ضرور ملئے۔ بجواب اس کے مولوی احمد علی صاحب نے فرمایا کہ میرا ارادہ ضرور ملنے کا ہے اور پیرجی خدابخش صاحب نے یہی وعدہ قادیان چلنے کا کیا تھا۔ ابھی تک اتفاق نہیں ہوا اور محمد حنیف کی طرف متوجہ ہوکر یہ بھی فرمایا کہ تم بھی قادیان چلو اور میں بھی چلوں گا۔ مجھے بھی مرزاقادیانی سے ملنا ہے۔ کیونکہ اکثر شبہات جو ان کی تصنیف پر ہیں وہ ان کو سناؤں گا اور ان سے جواب لوں گا۔ بجواب اس کے مولوی احسن قادیانی نے دریافت کیا وہ شبہ آپ کے پاس لکھے ہوئے ہیں تو مجھے بھی دکھلائیے۔ بجواب اس کے مولوی احمد علی صاحب نے فرمایا کہ میرے پاس یہاں لکھے ہوئے تو نہیں ہیں۔ لیکن مجھے زبانی یاد ہیں۔ اگر آپ سننا چاہیں تو سنا سکتا ہوں۔ بجواب اس کے مولوی احسن قادیانی نے کہا کہ میں شائق ہوں سنائیے۔ شاید یہی کچھ طے ہو جاوے۔ بجواب اس کے مولوی احمد علی صاحب نے فرمایا کہ اوّل شبہ یہ ہے کہ مرزاقادیانی نے اپنی کتاب حمامتہ البشریٰ میں تحریر فرمایا ہے کہ طلوع الشمس من مغربہا ہو چکا ہے۔ بلکہ اور علامات قیامت اور خروج دجال اور دابۃ الارض وغیرہ بھی گذر چکے ہیں۔ اب جو مرزاقادیانی لوگوں کو اپنی طرف بلاتے ہیں اور دعوت اسلام کرتے ہیں تو ازروئے حدیث صحیح مسلم