حضرت خاتم النبیین کے وقت میں حلال ہوئی کہ پہلے کسی کے واسطے حلال نہ تھی۔ ایسے ہی آپ کی ہی خاص شریعت میں تمام زمین جائے نماز ہوگئی کہ جہاں چاہیں نماز پڑھ سکتے ہیں اور زمین پر تیمم مشروع ہوا کہ پہلے کسی کے واسطے یہ بات نہیں ہوئی تھی اور جناب خاتم النبیین کے واسطے یہ بھی بات خاص ہوئی کہ آپ تمام لوگوں کے طرف رسول کر کے بھیجے گئے اور پہلے نبی کسی خاص قوم کی طرف بھیجے جاتے تھے۔ ایسے ہی اور بات بہت سی باتیں کہ احادیث کے مطالعہ سے ظاہر ہوتی ہیں تو اگر آدم علیہ السلام سے لے کر کسی نبی نے قتل خنزیر نہ کیا اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کریں گے۔ تو کون سا محذور لازم آتا ہے۔
تیسرے صاحب رسالہ کا مقدمہ مسلمہ ہے کہ مسیح موعود ایک حاکم ہوں گے۔ حکام شریعت خاتم النبیین سے اور موافق شریعت محمدی کے عمل درآمد کریں گے تو میں کہتا ہوں کہ قتل خنزیر بھی ایک حکم ہے۔ احکام شریعت خاتم النبیین سے کہ مقید ہے ایک وقت خاص کے ساتھ وہ وقت نزول ابن مریم کا ہے اور اس پر دلیل یہی حدیث ’’یقتل الخنزیر‘‘ ہے۔ پس حضرت عیسیٰ کو اس پر عمل درآمد کرنا ضرور ہوگا۔ چاہے کسی نبی کی عادت کے موافق ہو چاہے مخالف ان کو اس سے کیا کام ان کو تو احکام شریعت محمدی کا بجالانا ہے۔ پس یہ کہنا کہ جب یہ بات عادتاً تمام انبیاء کے خلاف ہے تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کیونکر کریں گے غیرصحیح ہے۔ کما لا یخفی!
چوتھے کیا رسول اﷲﷺ نے کتوں کو نہ مروایا تھا اور عام طور پر کتے مارے گئے۔ پھر خنزیروں میں کون سا استبعاد ہے۔ مگر اصلی بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ جو لوگ سچے مسیح کے جھوٹے تابعدار ہوئے انہیں کو خنزیر محبوب رہے تو جن کی اصل ہی جھوٹی ہے یعنی ان کے مسیح ہی جھوٹے ہیں تو ان کو تو اور بھی احب ہوںگے۔ پھر بھلا ان کے مارنے کی راہ کیوںنکالنے دیں گے اور ایسی سبیل کیوں تجویز ہونے دیں گے۔ جس سے خنازیر قتل ہوں۔ مگر وہ کچھ کریں اﷲتعالیٰ تو اپنے نبی کی پیش گوئیوں کو ضرور ہی سچا کرے گا۔ گو منکرین کیسے ہی ہاتھ پیر چلائیں۔ یہاں پر یہ بھی بات قابل دید وغور ہے کہ اب کہاں تک نوبت پہنچ گئی کہ احادیث صحیحہ کے صریح مضامین پر کھلے کھلے طعن کرنے لگے۔ کہتے ہیں حضرت عیسیٰ کیونکر خنزیروں کا شکار کھیلتے پھریں گے۔ سبحان اﷲ! یہ کیسی دیانت ہے۔ ’’نعوذ باﷲ من شرور انفسنا ومن سیئات اعمالنا من یہدہ اﷲ فلا مضل لہ ومن یضلل فلا ہادی لہ‘‘
قولہ… ان کے وقت میں ایسے عوائق شرعیہ پیش آویں گے کہ جہاد ظاہری کا وقت نہ ہووے گا۔