اسباب ضلالت میں سے ہو جاوے گا۔ پس اوّل تو پہلے ہی یہ اطمینان نہیں کہ الہام ربانی اور وسوسہ شیطانی میں آسانی سے فرق ممکن ہو اور جب یہ احتمال پیش آگیا اور ملہم خود ہی مراد الٰہی سمجھنے میں معذور ہوگیا تو بالکل ہی یہ الہامات بیکار ہوگئے۔ یہ خلاصہ اس بات کا ہے جو مرزاقادیانی سے جلسہ دعوت میں ہوئے۔ اس کے جواب میں مرزاقادیانی نے غالباً حالت سکر میں یہ فرمایا کہ بعض عوام الناس کو خواب میں دوسری زبان کی دعائیں تلقین کی جاتی ہیں۔ جس کے معنی وہ نہیں جانتے۔ مولوی صاحب اس جواب سے اور بھی زیادہ متحیر ہوئے اور اسی پر کلام ختم کیا اور یہ سمجھا کہ یہ جواب بھی کچھ کم الہام سے نہیں ہے۔ اس کے بعد روز جمعہ واقع ہوا۔ مولوی صاحب نے مرزاقادیانی سے تواضع امامت کی نہیں کی۔ اس کے سبب سے مرزاقادیانی کو سخت پیچ وتاب ہوا اور غالباً اسی غیظ وغضب میں مرزاقادیانی نے نماز ادا فرمائی جو درحقیقت ادا نہیں ہوئی اور جس کو مرزاقادیانی نے خود بھی لکھا ہے کہ ہماری نماز نہیں ہوئی۔ جس کا اصل منشاء یہ تھا جو بیان کیاگیا۔ نماز کے بعد مرزاقادیانی مولوی صاحب کے مکان پر آئے۔ اس وقت اتفاق سے اسی جلسہ میں کنور محمد عبدالعلی خان صاحب خلف رئیس چھتاری بھی موجود تھے۔ مرزاقادیانی سے ان کی ملاقات کرائی گئی۔ مگر اس وقت ان کو دیکھ کر مرزاقادیانی کا تغیر احوال قابل دید تھا نہ قابل شنید۔ مرزاقادیانی فوراً پریشان ہوکر مولوی صاحب کو علیحدہ لے گئے اور مضطربانہ فرمایا کہ ان کو مجھ سے بیعت کرادو۔ مولوی صاحب نے عرض کیا کہ خود درخواست کرنا اور اس عجلت کے ساتھ کچھ مناسب نہیں ہے۔ انشاء اﷲ تعالیٰ وہ خود مرید ہو جاویں گے۔ مرزاقادیانی نے مولوی صاحب کو خارج مطالب سمجھا اور رخصت ہوگئے۔ مولوی صاحب دوسرے روز کنور محمد عبدالعلی خان صاحب کو ہمراہ لے کر مرزاقادیانی کی خدمت میں اس غرض سے حاضر ہوئے کہ اس وقت مرزاقادیانی سے سرسری ملاقات ہوئی تھی۔ اب ملاقات خاص میں کچھ بات چیت تفصیلی ہوگی۔ مگر مرزاقادیانی پھر فوراً رئیس مذکور کو علیحدہ مکان میں لے گئے اور مولوی صاحب سے مخفی ان سے کہا کہ تم کو خدا کا حکم ہے کہ مجھ سے بیعت ہو جاؤ۔ رئیس مذکور نے اس وقت بہ لطائف الحیل اس کو ٹال دیا اور مرزاقادیانی اور رئیس مذکور دونوں باہر آئے۔ مولوی صاحب نے مرزاقادیانی کے چہرہ پر کچھ آثار تشتت اور رئیس مذکور کے چہرہ پر کچھ آثار تبسم تکذیب آمیز پائے۔ رئیس مذکور نے علیحدہ ہوکر مولوی صاحب سے خفت آمیز ہنسی کے ساتھ کہا کہ مرزاقادیانیت بیعت ہوجانے کو فرماتے تھے۔ مولوی صاحب کو نہایت ندامت اس وجہ سے ہوئی کہ اہل اﷲ کی خفت اسلام کی تفضیح ہے۔ پھر اس کے بعد مولوی صاحب مرزاقادیانی سے نہیں ملے اور وقت رخصت جو چندہ پچاس چالیس روپے کا مرزاقادیانی کے