سے آخر تک مرزاقادیانی کے علی گڑھ میں آنے کا انہوں نے تفصیل بیان کیا ہے۔ لہٰذا میں اس میں سے کچھ لکھتا ہوں۔ انہیں الفاظ کے ساتھ بعینہ نقل کرتا ہوں۔ کوئی حرف اپنی طرف سے زائد نہ کروںگا اور نیز کسی بیان کو شروع کر کے ناقص نہ کروں گا۔ چونکہ تہذیب اس کی غیر کی جانب سے کی ہے۔ لہٰذا ہر جگہ مولوی صاحب موصوف بصیغہ غائب مذکور ہیں تو کیفیت تشریف آوری مرزاقادیانی کی علی گڑھ میں لکھ کر لکھتے ہیں۔ ’’مولوی صاحب بھی خبر پاکر فوراً مرزاقادیانی کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عجیب شوق وذوق کے ساتھ مرزاقادیانی سے ملاقات کی مگر مولوی صاحب کی ادراک صحیح نے ہر چند مرزاقادیانی کی زیارت میں مضمون ’’اذا اراد ذکر اﷲ‘‘ کو تلاش کیا۔ مگر ہرگز اس کا نشان نہ پایا۔ زبان فیض ترجمان کو بھی افادہ فیوض ربانی میں قاصر پایا تو مجبور ہو کر مولوی صاحب صاحب نے مرزاقادیانی کی خدمت میں عرض کیا کہ آپ کی رونق افروزی اس دیار میں گویا نعمت غیر مترقبہ ہے۔ ہم لوگ چاہتے ہیں کہ کچھ آپ کے افادات سے مستفید ہوں۔ آپ کسی عام جلسہ میں کچھ مطالب توحید کچھ اسرار رسالت بیان فرمادیں۔ مرزاقادیانی نے اس کو قبول فرمایا اور قریب تھا کہ اس کی بابت منادی عام کی جاوے کہ اسی اثناء میں مرزاقادیانی کا عنایت نامہ مولوی صاحب کے پاس آیا۔ مرزاقادیانی نے اس میں یہ تحریر فرمایا تھا کہ مجھے آج صبح کی نماز میں میرے خدا نے منع کیا ہے کہ میں کچھ بیان کروں۔ مجھ کو اشارہ یمنع کا ہوا ہے۔ اس وقت مولوی صاحب اور تمام مشتاقان فیض واستفادہ کو نہایت صدمہ ہوا۔ اس عرصہ میں جوق جوق مرد مان شہر مرزاقادیانی کی خدمت میں حصول برکات کے واسطے حاضر ہوئے۔ مگر جو آیا اس نے کہا کہ مرزاقادیانی نے اہل بدعت سے ان کی حسب تمنا گفتگو کی اور دوسرے جلسہ میں اہل سنت سے ان کی مرضی کے موافق باتیں کیں۔ تیسرے جلسہ میں اہل تشیع کو راضی رکھا۔ چوتھے جلسہ میں کچھ اور ہی فرمایا۔ مولوی صاحب نے اس کو بھی سکوت سے ٹال دیا۔ اس کے بعد یہ مرحلہ پیش آیا کہ مولوی صاحب نے مرزاقادیانی کی دعوت کی اور جلسہ دعوت میں مرزاقادیانی کے انگریزی الہامات کا کچھ ذکر آگیا۔ مولوی صاحب نے مرزاقادیانی سے عرض کیا کہ الہام کو بحق ملہم اس وجہ سے حجت سمجھا جاتا ہے کہ ملہم واسطہ کا محتاج نہیں ہوتا اور جب ایسی زبان میں الہام ہو جس کو ملہم نہ جانتا ہو تو لامحالہ ایسی زبان سے مراد الٰہی کے سمجھنے میں ملہم بھی محتاج واسطہ کا ہوگا۔ اس تقدیر پر ملہم اور غیرملہم دونوں کے حق میں یہ الہام بنظر احتیاج الیٰ الواسطہ برابر ہوجاوے گا اور احتیاج واسطہ میں یہ مشکل محتمل ہے کہ بعض اوقات اگر واسطہ غیر معتبر ہو یا مخالف معاند ہو اور الہام کی مراد کو بالکل خلاف منشاء ربانی سمجھا جاوے تو اس صورت میں بجائے ہدایت کے یہ الہام