مسحۃ آدم وصورۃ یوسف وقلب ایوب ومن کان من اہل النار عظموا وفخموا کالجبال رواہ البیہقی باسناد حسن (الترغیب والترہیب ص۴۰۱)‘‘
پس اس سے صاف ثابت ہوا کہ تینتیس برس کا سن سن شباب ہے۔ نہ سن کہولت۔ ورنہ فناء شباب اہل جنت لازم آتا ہے۔ ’’وھو خلاف ماثبت بالاحادیث الصحیحۃ‘‘
پس ثابت ہوا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام سنّ شباب میں اٹھائے گئے۔ نہ سن کہولت میں۔ علاوہ اس کے اصل معنی کہل کے ’’من وحظہ الشیب ورایت لہ بحالۃ‘‘ ہیں۔ جیسا کہ قاموس وصحاح وغیرہا میں لکھا ہے۔ یعنی کہل وہ شخص ہے جس کے بالوں میں سپیدی مخلوط ہو جائے اور دیکھی جائے۔ اس کے لئے بزرگی اور اقوال مختلفہ جو اوّل سن کہولت میں منقول ہیں۔ وہ فی الواقع مختلف نہیں ہیں۔ بلکہ یہ اختلاف مبنی ہے۔ اختلاف قوی اشخاص پر جو اعلیٰ درجہ کی قوت رکھتا ہے۔ اس کا اوّل سن کہولت چالیس یا قریب چالیس کے ہوتا ہے اور جو اوسط درجہ کی قوت رکھتا ہے۔ اس کا اوّل کہولت بتیس یا تینتیس ہوتا ہے اور جو ادنیٰ درجہ کی قوت رکھتا ہے۔ اس کا اوّل کہولت بعد تیس کے ہوتا ہے۔ اختلاف زمانہ کو اختلاف قویٰ میں بہت دخل ہے۔ جس قدر زمانہ کو خلق آدم سے بعد ہوتا جاتا ہے۔ اسی قدر قوی ضعیف ہوتے جاتے ہیں۔ اس پر مشاہدہ ونصوص قرآنیہ وحدیثیہ ناطق ہیں۔ ان میں سے ہے۔ حدیث ابی ہریرہؓ جو مرفوع اور متفق علیہ ہے۔ ’’فلم یزل الخلق ینقص بعدہ حتی الآن‘‘ یہ عمدہ صورت اقوال مختلفہ میں توفیق کی بعد اس تمہید کے میں کہتا ہوں کہ احادیث صحیحہ سے ثابت ہے کہ آنحضرتﷺ کی عمر مبارک ساٹھ سے تجاوز کر گئی تھی۔ لیکن آپ کی سرمبارک اور ریش شریف میں گنتی کے بیس بال سے کم سفید تھے۔ بخاری ومسلم میں انسؓ سے روایت ہے۔ ’’وتوفاہ اﷲ علی راس ستین سنۃ ولیس فی راسہ ولحیتہ عشرون شعرہ بیضاء وعن ثابت قال سئل انس عن خضاب رسول اﷲﷺ فقال انہ لم یبلغ مایخضب لوشئت ان اعد شمطاتہ فی لحیتہ وفی روایۃ لوشئت ان اعد شمطات کن فی راسہ فعلت متفق علیہ وفی روایۃ المسلم قال انما کان البیاض فی عنفقتہ وفی الصدغین وفی الراس نبذ‘‘ مخفی نہ رہے کہ حدیث اوّل میں جو ستین کا لفظ آیا ہے۔ دوسری احادیث مین اس کے خلاف آیا ہے۔ بعض میں ثلث ستین اور بعض میں خمس وستین ہے۔ ’’قال العلماء الجمع بین الروایات ان من روی خمسا وستین عدسنتی المولد والوفاۃ من روے