پس یہ حملہ اسلام پر پہلے بھی لوگ کر چکے ہیں۔ مگر اسلام اور اہل اسلام نے فتح پائی اور اﷲتعالیٰ کی ذات پاک سے اب پوری اور کامل امید ہے کہ اسلام کا بول بالا ہوگا اور اہل اسلام ضرور فتح یاب ہوں گے اور چند عرصہ کے بعد ابن ہود کی طرح مرزاقادیانی کو بھی لوگ بھول جائیں گے۔ مگر مرزاقادیانی سے چونکہ عاجز کی قدیم ملاقات ہے اور ان کے بعض اتباع سے بھی اس لئے اس عاجز کو یہ خیال ہے کہ اﷲتعالیٰ مرزاقادیانی کو تو بہ نصیب کرے یا اﷲ بطفیل اپنے حبیب سید المرسلین شفیع المذنبینﷺ کے مرزاقادیانی کو تو صراط مستقیم پر لے آ اور اس نازک وقت میں مسلمانوں کو اس فتنہ سے نجات دے۔ آمین! اے میرے رب جلیل بے شک تیرا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں ہے تو ضرور اپنی حکمت بالغہ سے ہمیشہ اپنے بندوں کو آزماتا رہا ہے۔ مگر اے ارحم الرحمین تو اپنے عام فضل اور وسیع رحمت اور رحمۃ للعالمین کی برکت سے ہم کو اس آزمائش سے معاف کر دے تو نے بے شک ہماری مدد کی اور کرتا ہے اور کرے گا مگر ہم آزمائش کے لائق نہیں۔ ’’ربنا لا تزغ قلوبنا بعد اذ ہدیتنا وہب لنا من لدنک رحمۃ انک انت الوہاب‘‘ جس وقت مرزاقادیانی دہلی میں آئے تھے اس وقت میں نے بہت چاہا کہ مرزاقادیانی دوستانہ طور پر گفتگو کر کے اس امر کا فیصلہ کریں۔ مگر مرزاقادیانی نے سوائے ناجائز عذر اور ترکیبی ٹال مٹول اور بے سود چالوں کے کوئی بات نہ کی باوجود یکہ میں بار بار ان کی خدمت میں گیا اور مکررسہ کرر نوٹس بھی دئیے۔ مگر مرزاقادیانی کو گفتگو کی جرأت نہ ہوئی۔ ناچار ان کی خدمت کرنی پڑی۔ چنانچہ بفضلہ تعالیٰ وتقد س ان کے تمام رسائل کے جواب سے اہل اسلام سبکدوش ہوئے اور طبع ہونے بھی شروع ہوگئے۔ مگر قبل از اشاعت پھر اس کے ذریعہ سے تمام اتباع ومعتقدین مرزاقادیانی کو اطلاع دی جاتی ہے کہ کوئی بھی تم میں ایسا ہے کہ باہمی گفتگو اخلاق کے ساتھ کچھ دنوں کر سکے یا ابن ہود کی طرح مرزاقادیانی کو مناظرہ یا مباہلہ پر آمادہ کرے۔
الیس منکم رجل رشید!
قطعہ تاریخ از نتائج طبع سرآمد شاعران محمد سردار خان صاحب کیفی دہلوی سلمہ اﷲ الولی
آیا غلام احمد بن کر مسیح کاذب
یہاں بھی دکھائی آکر تہذیب قادیانی
سننے کا ہزل وبطلان کفارہ تھا مناسب
تھی واعظوں پہ واجب تغریب قادیانی
اس وجہ سے جناب عبدالمجید صاحب
اٹھے ادھر سے بھرتادیب قادیانی
لکھی کتاب رد میں جب اس کی بہ توکیفی۔۔ازروئے بحث بولا تکذیب قادیانی