۶… ’’سب اہل اسلام کو لازم ہے کہ اس نعمت کی ناشکری نہ کریں۔‘‘ اعلام الناس حصہ اوّل ص۲ اور اگر جناب اس سے بھی انکار کریں۱؎۔ تو نوع انسان میں تو سب ہی انسان شامل ہیں اور آپ کا خطاب بایں الفاظ ہے۔
۷… ’’ایہا الناس‘‘ دیکھو (اعلام الناس حصہ اوّل ص۵۱)
۸… تو بشرط نہ مکدر ہونے کے یہ عاجز حاضر وموجود ہے ؎
تو مکدر نہ ہوتو عشق میں ہم
ایک آندھی ہیں خاک اڑانے کو
(ایضاً حصہ دوم ص۱۷)
۹…
جوئے شیر بھی میں ہی لایا تھا
میں ہی دشت میں تھا برہنہ پا
میں ہی کو ہکن میں ہی قیس تھا
تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
(ایضاً ص۴۱)
ہاں! جناب احسن المناظرین صاحب مجھے بھی خوب یاد ہے۔ آپ سے بہت پہلے میری مرزاقادیانی سے ملاقات ہے۔ ان کی حقیقت تو میں خوب جانتا ہوں وہ تو کچھ بھی نہیں۔ واقعی جو کچھ ہیں وہ آپ ہی ہیں۔ پیران نمے پرند مریدان می پرانند پرانا مقولہ ہے۔ آپ سچ فرماتے ہیں۔ ’’جوئے شیر بھی میں ہی لایا تھا۔‘‘
اور اسی واسطے یہ خاکسار بھی آپ ہی کے پاس حاضر ہوا ہے اور اﷲتعالیٰ سے امید کامیابی ہے۔ ’’علیہ توکلت وہو حسبی‘‘
۱۰… ’’یہ ہیچمدان آپ کو گفتگو اور مناظرہ میں سب طرح کی آزادی دیتا ہے۔ یعنی تقریر وتحریر جس طرح پر آپ چاہیں اور جس مسئلہ میں منظور ہو آپ مجھ سے گفتگو ومناظرہ کر لیں۔‘‘
(اعلام الناس حصہ دوم ص۹۹)
۱؎ کیونکہ آپ کے مرزاقادیانی نے تو یہ غضب ڈھایا ہے کہ کل اہل اسلام کو مشرک اور خارج از اسلام بتلادیا اور آپ کا یہ حسن ظن کہ وہ جو کچھ فرمائیں سب ٹھیک درست ہے۔
(ازالہ اوہام حصہ اوّل ص۲۹۰، خزائن ج۳ ص۴۵۲)