ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2013 |
اكستان |
|
رسولِ کریم ۖ نے فرمایا کہ عید کے دِن قربانی کا جانور ذبح کرنے کے لیے پیسے خرچ کرنا اللہ تعالیٰ کے یہاں اَور چیزوں میں خرچ کرنے سے زیادہ اَفضل ہے ۔ (ترغیب وترہیب ٢ / ١٠٠) حدیث میں ہے کہ ایک مرتبہ حضرات ِصحابہ نے سوال کیا یا رسول اللہ! اِن قربانیوں کی کیا حقیقت ہے ؟ آپ ۖ نے فرمایا یہ طریقہ ہمارے باپ اِبراہیم علیہ السلام سے جاری ہوا ہے اَور یہ اُن کا طریقہ چلا آرہا ہے (جس کی اِتباع کا ہم کو حکم دیا گیا ہے) صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا ہم کو اِن میں کیا ملتا ہے ؟ فرمایا ''ہر بال کے بدلہ ایک نیکی'' عرض کیا اُون والے جانور یعنی بھیڑ دُنبہ کے ذبح پر کیا ملتا ہے ؟ فرمایا ''اُون میں سے ہر بال کے بدلہ ایک نیکی ملتی ہے۔''( ترغیب وترہیب ) ایک روایت میں ہے کہ قربانی کے ذبح ہونے کے وقت زمین پر پہلا قطرہ گرنے سے قربانی کرنے والے کے گزشتہ (صغیرہ گناہ) معاف کردیے جاتے ہیں۔ (بزار، ترغیب و ترہیب ٢/ ١٠٠) ایک اَور روایت میں ہے کہ قربانی کا خون بظاہر اگرچہ زمین پر گرتا ہے لیکن دَرحقیقت وہ اللہ عزو جل کی حفاظت اَور نگہبانی میں داخل ہوجاتا ہے۔ (ترغیب و ترہیب ٢ / ١٠٠ بحوالہ طبرانی ) ایک اَورروایت میں ہے کہ جو شخص خوش دِلی اَور اِخلاص کے ساتھ اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لیے قربانی کرتا ہے تو یہ قربانی اُس کے لیے آگ (یعنی دوزخ) سے آڑ بن جاتی ہے۔ اِن اَحادیث سے معلوم ہوا کہ دس ذی الحجہ کے دِن قربانی کرنے سے جو فضیلت حاصل ہوسکتی ہے وہ اِس کے مقابلہ میں کسی دُوسرے عمل سے حاصل نہیں ہوسکتی اِسی لیے اَگر کوئی شخص مثلاً پانچ ہزار روپیہ قربانی کرنے پر خرچ کرتا ہے اَور دُوسرا شخص قربانی کے بجائے پچاس ہزار روپیہ صدقہ کرتا ہے تب بھی قربانی کرنے والے کو زیادہ فضیلت حاصل ہوگی۔