ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2013 |
اكستان |
|
رسول اللہ ۖ کے وقت میں تھا اَور حکم دیا کہ مسجد ِ نبوی میں چٹائی کا فرش بچھایا جائے چنانچہ چٹائیاں مقام ِ عقیق سے لائی گئیں اَور بچھائی گئیں۔ (٤) اہلِ کتاب کی عورتوں سے نکاح سے ممانعت کے فرمان جاری کیے اَور یہ بھی اِس کے ساتھ تصریح کردی کہ خدا نے اِس کو حلال کیا ہے، میں حلال کو حرام نہیں کرتا بلکہ یہ ممانعت اَزراہ ِ مصلحت ہے، واقعی کس قدر اَنجام بینی اِس حکم میں تھی۔آج مسلمانوں کی اُن نسلوں کو کوئی دیکھے جن کی مائیں یورپ کی عیسائی یا یہودی ہیں تو اُس کو اِس حکم کی قدر معلوم ہوگی۔ (٥) اَپنے زمانۂ خلافت میں حکم دیا کہ ممالک اِسلامیہ کے بازاروں میں کوئی شخص دُوکان نہیں رکھ سکتا جب تک کہ مسائلِ دینیہ کا علم نہ رکھتا ہو، کتنی زبر دست تدبیر علم ِ دین کی ترویج کی تھی۔ (٦) اَپنے دَربار میں زیادہ عزت اُن لوگوں کی کرتے جو علم ِ قرآن میں فوقیت رکھتے ہوں اَور اَکثر علم ِ قرآن میں لوگوں کا اِمتحان بھی لیتے اَور جو کامیاب ہوتا اُس کی بڑی توقیر فرماتے۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی اِس قدر عزت و توقیر فرماتے کہ اَکابر مہاجرین و اَنصار نے ایک مرتبہ اِس پر اِعتراض کیا تو آپ نے فرمایا کہ وہ علم ِ قرآن میں فوقیت رکھتے ہیں اَور کئی مرتبہ سرِدَربار اُن کا اِمتحان لے کر اُن کی فوقیت کو سب پر ظاہر فرمایا ۔ یہ اَور اِس کے مثل نہ معلوم کتنی تدبیریں اُنہوں نے اِختیار فرمائی تھیں کہ دس سال میں ساری دُنیا کو علم اَور دین سے لبریز کردیا۔ کتنے کافر اُن کے عہدِخلافت میں مسلمان ہو ئے ،اِس کا تخمینہ کسی نے نہیں بیان کیا اَور غالبًا نہ بیان کرنے کی وجہ یہ ہے کہ اِس کا اَندازہ بھی خدا وندِ علیم و خبیر کے سوا کوئی نہیں کر سکتا، عیسائیوں اَور مجوسیوں میں جس قدر اِسلام پھیلا یہ سب اُن ہی کے عہد ِمبارک کی برکات تھیں۔ فَجَزَاہُ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنِ الْاِسْلَامِ وَاَھْلِہ جَزَائً وَّافِیًا حضرت فاروقِ اَعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے علمی اَور دینی کارناموں کو دیکھ کر ایک منصف شخص بے چوں وچرا اِس بات کو تسلیم کر لیتا ہے کہ بلا شک وہ اَپنے وقت میں جس طرح دینداری میں سب پر فوقیت رکھتے تھے اُسی طرح علم میں بھی سب سے سبقت لے گئے تھے۔