ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2013 |
اكستان |
|
٭ مریض کو خون چڑھانا۔ ٭ اَعضاء کی پیوند کاری۔ یہ سب مسائل اَخبارات، رسائل اَور فتاوی میں طبع بھی ہو چکے ہیں۔ اِن سب مسائل پر بحث ہوئی اِجتہاد کیا گیا اَور کچھ پر بحث جاری ہے ۔ ٭ مشینی ذبیحہ درست ہے یا نہیں ؟ اَیوب خاں کے دَور میں حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمة اللہ علیہ نے اِس کے جواز کا فتوی دے دیا تھا لیکن حضرت مولانا مفتی محمود صاحب رحمة اللہ علیہ نے اِس کی مخالفت کی، اِن کی دلیلیں مفتی محمد شفیع صاحب نے تسلیم کیں اَور اَپنے فتوے سے رُجوع کا اِعلان فرمایا۔ جس طرح مذکورہ بالا مسائل میں اِجتہاد کیا گیا اِسی طرح آج ہر نئے مسئلہ میں علمائِ کرام اِجتہاد کر سکتے ہیں اَور اُسے سب تسلیم کریں گے۔ لیکن شرط یہ ہے کہ وہ اِجتہاد اُصولِ فقہ کے تحت ہو، اُس کا متن ایسا عالم لکھے جس کے تبحر علمی پر اِعتماد کیا جاتا ہو، اُس کی بے نفسی، تقوی اَور غیر مرعوبیت واضح ہو پھر اُس کے فتوے کی مختلف مقامات کے بڑے بڑے دارُالافتاء اَور علماء یا علماء کا بہت بڑا مجمع تصدیق کرے، ورنہ بصورتِ اِختلاف وہ اِجتہاد بے کار اَور غیر مقبول ہوگا۔ اِختلاف کا مطلب ہی یہ ہوتا ہے کہ اِس مسئلہ میں کہیں اُصولی غلطی ہو رہی ہے یا گنجائش نہیں ہے اَور پیداکی جا رہی ہے جسے اِختلاف کر نے والے علماء دلیل سے ثابت کرتے ہیں۔ چند مسائل میں اِس قسم کا اِختلاف علماء ِ ہند اَور علماء ِ مصر میں چلا آرہا ہے۔ اَور جب بھی علماء ِ ہند کی علماء ِ مصر سے گفتگو ہوتی ہے تووہ اِنفرادی طور پر اَپنے علماء ِ مصر کی غلطی تسلیم کرتے ہیں۔ اِس دَور میں ہرشخص یا ہر عالم کو مجتہد نہیں مانا جاتا ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ اِجتہادکے لیے جتنا بڑا علم شرط ہے وہ کسی فرد ِ واحد میں نہیں پایا جاتا۔ اَور جس دَرجہ تقوی شرط ہے وہ ،اَور اِتنا علم دونوں باتیں جمع ہوں تو مجتہد ہو سکتا ہے۔