ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2013 |
اكستان |
|
رسولِ خدا ۖ کے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ جو کافروں کے ساتھ میدانِ جنگ میں آئے تھے قیدیانِ بدر میں وہ بھی شامل تھے، لوگوں نے اِن کے قتل کا اِرادہ کیا مگر رسولِ خدا ۖ کے مزاجِ مبارک کے خلاف دیکھ کر حضرت فاروقِ اَعظم رضی اللہ عنہ نے اِن کی پُر زور حمایت کی۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے سوا اَور سب قیدیانِ بدر کے بارے میں اُنہوں نے قتل کا مشورہ دیا اَور کہا کہ ہر مسلمان اَپنے عزیز کو اَپنے ہاتھ سے قتل کرے اگرچہ عمل اُن کی رائے پر نہ ہوا مگر خدا کو اُن کا یہ مشورہ اِس قدر پسند آیا کہ اِس کی تائید میں آیات ِ قرآنی اُتری۔ غزوۂ اُحد : باوجود اِس اِنتشار کے جو رسولِ خدا ۖ کی شہادت کی شہرت سے اَور اِسلامی فوجوں کے دَرمیان کافروں کے لشکر کے داخل ہوجانے سے پید اہو گیا تھا، حضرت فاروق رضی اللہ عنہ میدانِ جنگ سے نہیں ہٹے جب رسولِ خدا ۖ کوہِ اُحد پر تشریف لے گئے تو یہ بھی جاں نثاری کے لیے ہمراہ تھے اَور اَبو سفیان کی باتوں کا دَندانِ شکن جواب اِن ہی نے دیا تھا۔ غزوۂ خندق : اِس غزوہ میں خندق کی ایک جانب کی حفاظت اِن کے سپرد تھی چنانچہ بعد میں اُس مقام پر بطورِ یاد گار ایک مسجد اِن کے نام کی بنائی گئی۔ غزوۂ بنی مصطلق : اِس غزوہ میں مقدمہ لشکر اِن ہی کی ماتحتی میں تھا اَور اِن ہی نے کافروں کے ایک جاسوس کو گرفتار کیا اَور دُشمن کے تمام خفیہ حالات دَریافت کر کے اُس جاسوس کو قتل کردیا۔ اِس واقعہ سے بڑا رُعب کافروں پر طاری ہوگیا۔ اِس غزوہ میں یہ خدمت بھی اِن کے سپرد کی گئی کہ عین ہنگامۂ جنگ میں اِعلان کردیں کہ جو شخص کلمہ اِسلام پڑھ لے گا اُس کو اَمان دے دی جائے گی۔ غزوۂ حدیبیہ : اِس غزوہ میں غیرت ِ اِیمانی اَور حمیت ِ دینی کا ایک ایسا غلبہ حضرت فاروق رضی اللہ عنہ پر تھا کہ