ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2013 |
اكستان |
|
مغلوبانہ صلح پر کسی طرح راضی نہ ہوتے تھے اَور اِسی جوش میں رسولِ خدا ۖ سے جا کے کہا کہ کیاآپ خدا کے سچے نبی نہیں ہیں، کیا ہم حق پر اَور ہمارا دُشمن باطل پر نہیں ہے ؟ آنحضرت ۖ نے فرمایا یہ سب صحیح ہے۔ تو کہنے لگے کہ ہم کیوں صلح کریں۔ اَپنی اِس گفتگو پر بعد میں بہت نادِم ہوئے اَور فرماتے تھے کہ میں نے بہت روزے رکھے، نمازیں پڑھیں، خیرات دی، غلام آزاد کیے تاکہ گستاخی کا کفارہ ہو جائے یہاں تک کہ مجھے یقین ہو گیا کہ میں نے اچھی ١ بات کی تھی گستاخی نہ کی تھی۔ حدیبیہ سے لوٹتے وقت جب سورہ اِنَّا فَتَحْنَا نازل ہوئی جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے قلوب کے لیے جو اِس مغلوبانہ صلح سے زخمی ہو گئے تھے بہترین مرہم ہے تو سب سے پہلے رسولِ خدا ۖ نے اِن ہی کو سنائی کیونکہ اِس میں بڑی خوشخبری اَور فضیلت اِن ہی کے لیے ہے۔ غزوۂ خیبر : اِس غزوہ میں میمنۂ لشکر کے اَفسر یہی تھے، اِس لڑائی میں ہر شب کو ایک ایک صحابی پہرہ دیتے تھے جس شب میں اِن کی باری تھی، اِنہوں نے ایک یہودی کو گرفتار کیا اَور رسولِ خدا ۖ کے پاس لے گئے، اِس سے تمام سچے حالات خیبر کے معلوم ہو گئے اَور یہی چیز فتح خیبر کا بہترین ذریعہ بنی۔ خیبر میں بھی ایک روز قلعۂ خیبر کے فتح کر نے کے لیے بھیجے گئے اگرچہ اُس روز قلعہ فتح نہیں ہوا مگر واقعہ یہ ہے کہ اِس سے یہودیوں کا زور بہت ٹوٹ گیا۔ غزوۂ حنین : اِس غزوہ میں جماعت ِ مہاجرین رضی اللہ عنہم کاایک جھنڈا اِن کے سپردہوا جس سے اِس اَمر کا اِظہار ہوا کہ جماعت ِ مہاجرین رضی اللہ عنہم کی سرداری اِن کو عطا فرمائی گئی۔ اِس طرح تمام غزوات میں کارہائے پسندیدہ اَنجام دیتے رہے،٧ ھ میں اِن کو رسولِ خدا ۖ نے تیس سواروں کے دَستے پر اَفسر بنا کر ہوازن کی طرف بھیجا۔(جاری ہے) ض ض ض ١ روایت کے اصل الفاط یہ ہیں : ما زلت اصوم و اتصدق و اصلی و اعتق من الذی صنعت یومئذ مخافة کلامی الذی تکلمت بہ حتی رجوت ان یکون خیرا۔ (اِزالة الخفاء بحوالہ سیرت اِبن اِسحاق)