ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2013 |
اكستان |
|
اَور بڑی جلدی مدارجِ کمال کو طے کر لیا۔ سیّد صاحب نے آپ کو خلافت سے سر فراز فرمایا چنانچہ محمد جعفر تھانیسری نے ''توا ریخ ِ عجیبہ'' میں جہاں سیّد صاحب کے خلفاء کو نام بنام گنایا ہے وہاں مولانا خرم علی کا نام بھی ہے۔ ١ جذبۂ جہاد : جب سیّد صاحب نے جہاد کی دعوت دی اَور سکھوں کے خلاف جہاد کا اِعلان کیا اُسی زمانہ میں آپ نے ایک نہایت ہمت آفرین نظم کہی جو ''رسالہ ٔجہادیہ'' کے نام سے مشہور ہے۔ جہاد میں شرکت کے لیے روانگی : مولانا خرم علی جہاد میں شرکت کے لیے اَپنے ساتھ کم و بیش سو مجاہدوں کاایک قافلہ ہندوستان سے لے کر سرحد پہنچے تھے۔ سیّد صاحب جب دورۂ سوات سے فارغ ہو کر پنجتار پہنچے اُس وقت ہندوستان سے جو قافلے آئے اُن میں مولانا خرم علی بلہوری کاقافلہ بھی تھا۔ ٢ منشی محمد جعفر تھانیسری کاخیال ہے کہ موصوف بھی اُن لوگوں میں تھے جو کبیدۂ خاطر ہو کر جہادسے واپس گئے تھے۔ ٣ لیکن مولانا غلام رسول مہر کو موصوف کے اِس بیان سے اِختلاف ہے چنانچہ لکھتے ہیں : ''مشہور روایت ہے کہ سیّد صاحب کے ساتھ جہاد کے لیے گئے تھے وہاں سے واپس آگئے اَور غالبًا سیّد صاحب نے اُنہیں دعوت و تبلیغ کے لیے مقرر کر دیا۔ '' ٤ ہمارابھی یہی خیال ہے اَور معلوم ہوتاہے کہ منشی محمد جعفر تھانیسری کا مذکورۂ بالا بیان کسی غلط فہمی پر مبنی تھا کیونکہ مولانا خرم علی سیّد صاحب کے خلفاء میں سے تھے، آپ کے حالات کے مطالعہ سے اَور سیّد صاحب کی مردم شناسی کے پیش ِ نظر یہی بات زیادہ قرین ِقیاس ہے کہ سیّد صاحب نے موصوف کو ١ تواریخ عجیبہ موسوم بہٰ سوانح ِ اَحمدی ،ص: ١٨٥،مطبع فاروقی دہلی ١٣٠٩ھ ٢ اِسلام کی دسویں کتاب الملقب بہ تاریخ لب لباب ،ص: ٢٣٢ ،مطبع محمدی، لاہور ١٣١٠ھ ٣ تواریخ ِ عجیبہ ص: ١٨٥ ٤ جماعت ِ مجاہدین ص: ٢٩٤ طبع لاہور