ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2013 |
اكستان |
|
اللہ کی ذات و صفات میں شریک جاننے ) سے چلا ہے ۔ اَور حدیث شریف میں آتا ہے کہ اِس کی اِبتدا بھی اِسی طرح ہوئی تھی کہ حضرت آدم علیہ السلام کے زمانے میں کفر تھا نہ شرک تھا بعد کے دَور میں اِسی طرح ہو اہے کہ اُنہوں نے اُن لوگوں کے بت تراش لیے جنہیں بزرگ سمجھتے تھے تصویریں بنالیں جنہیں بزرگ سمجھتے تھے اُن کی ،کس لیے ؟ تبرکاً اَور یادگار کے طور پر ،اِس لیے نہیں کہ وہ شریک سمجھتے ہوں ،وہ غلط کار ہوں، یہ بات نہیںتھی لیکن جب وہ ختم ہوگئے اَور اَگلی نسلیں آئیں تو اُنہوں نے اُن کو ڈنڈوت کرنی شروع کردی جیسے ہاتھ جوڑتے ہیں سر جھکالیتے ہیں یا سجدہ کرلیتے ہیں یا اَور آگے................... تو پھر عبادت شروع کردی، کہتے ہیں ( مَا نَعْبُدُھُمْ اِلاَّ لِیُقَرِّبُوْنَآ اِلَی اللّٰہِ زُلْفٰی ) ہمیں اللہ کا مقرب بنائیں اِس لیے ہم پوجتے ہیں اِن کو۔ تو اِنسان تو یہ دیکھتا ہے کہ دِن رات جو کام ہوتے ہیں بادشاہت تھی پہلے بادشاہ تک پہنچنا اَور اَب صدر تک پہنچنا واسطہ دَر واسطہ ہوتا ہے کوئی اُس کا ملنے والا ڈھونڈیں گے، وہ آپ کو مِلادے تومِلادے ورنہ تومِلنا ہی نہیں ہو سکتا، اِسی طرح خدا کے بارے میں بھی جتنی بھی غلطی پر قومیں گزری ہیں مشرک گزری ہیں اُن کا عقیدہ یہی تھا کہ خدا تک براہِ راست پہنچنا جو ہے وہ بغیر اِن کے نہیں ہوگا۔ خدا کا شکرہے مسلمان تو اِس میں نہیں ہیں مبتلا ورنہ تو نماز ہی وہاں پڑھا کرتے جہاں بزرگ کا مزار ہوتا وہ آگے اَور نماز اُدھر ،اِسی لیے قبر کے سجدے کو منع کرتے ہیں اَور اِس میں دُنیا بھر میں کسی کا اِختلاف نہیں ۔ہندوستان، پاکستان، بنگلہ دیش، دیوبندی، بریلوی کوئی لے لیں کسی کا اِختلاف نہیں ہے کہ قبر کو سجدہ چاہے تعظیم کی نیت سے ہو خدا بنا کر نہ ہو وہ حرام ہے، سب نے یہ لکھا ہے سب نے یہ فتوی دیا ہے، یہ تو بالکل جاہل جو نماز بھی نہیں پڑھتے وہ ایسا کچھ کر لیتے ہیں ،باقی جو نماز پڑھتے ہیں وہ تو ایسی حرکت نہیں کرتے ، نماز پڑھنے کے لیے وہ مسجد ہی میں جائیں گے اِمام ہی ڈھونڈیں گے خدا ہی کی عبادت کریں گے لیکن عقیدت میں کچھ دَخل اُن بزرگوں کو دے دیتے ہیں ۔