ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2013 |
اكستان |
|
''اے اللہ ! اِن کے سینے سے کینہ وعدا وت کو نکال دے اَور اِیمان سے بھر دے۔'' پھر جبرائیل ِ اَمین مبارکباد دینے کے لیے آئے کہ ''یا رسول اللہ ! اِس وقت آسمان والے ایک دُوسرے کو حضرت عمر کے اِسلام کی خوشخبری سنارہے ہیں۔ '' ٭ اِس نازک اَور پُر خطر وقت میں مسلمان ہوتے ہی اَپنے اِسلام کا اِعلان کیا اَور کافروں کے سامنے چند اَشعار نظم کر کے پڑھے ۔کافروں نے اِن کو گھیر لیا لیکن باوجود تنہا ہونے کے اِنہوں نے بھی کافروں کو مارا، قریب تھا کہ کافر اِن کو شہید کردیں کہ عاص بن وائل نے آکر چھڑایا۔ ٭ اِن کے مسلمان ہوتے ہی رسولِ خدا ۖ نے اِعلان کے ساتھ کعبہ میں نماز پڑھی اَور روز بروز اِسلام کی قوت و شوکت بڑھتی گئی۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ حضرت عمر کا مسلمان ہوجانا فتح ِاِسلام تھا اَور اُن کی ہجرت نصرتِ اِلٰہی تھی اَور اُن کی خلافت اللہ کی رحمت تھی۔ ٭ آپ رسولِ خدا ۖ سے پہلے ہجرت کر کے مدینہ گئے اَور بڑی شان سے ہجرت کی۔ جب مکہ سے چلنے لگے تو کعبہ مکرمہ کا طواف کیا اَور مجمع ِ کفار کو مخاطب کر کے فرمایا کہ میں اِس وقت ہجرت کر رہا ہوں، یہ نہ کہنا کہ عمر چھپ کر بھاگ گیا،جس کو اَپنی بیوی کا بیوہ کرنا اَور بچوں کو یتیم کرنا منظور ہو وہ اِس وادی سے نکل کر مجھے روک لے مگر کسی کی ہمت نہ ہوئی کہ کچھ جواب دیتا۔ حالات بعد ہجرت : ہجرت کے بعد سب سے بڑی خدمت مغازی کی تھی اُس میں حضرت فاروقِ اَعظم رضی اللہ عنہ سے کون سبقت لے جا سکتا تھا۔ آنحضرت ۖ کے تمام غزوات میں شریک رہے اَور ہر غزوہ میں پسندیدہ خدمتیں اَنجام دیں، مثال کے طور پر چند ملاحظہ ہوں : غزوۂ بدر : سب سے بڑا کام اِس غزوہ میں یہ کیا کہ اَپنے حقیقی ماموں عاص بن ہشام کو میدانِ جنگ میں اَپنے ہاتھوں سے قتل کیا۔