ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2013 |
اكستان |
|
شعر وسخن کا ذوق : مولانا کو شعرو سخن کا بھی ذوق تھا کبھی کبھی خود بھی شعر کہتے اَور'' خرم'' تخلص کرتے تھے مگر شعراِن کا مشغلہ نہ تھابلکہ جو کچھ لکھتے تھے وہ ضرورت سے مجبورًا اَور حالات سے متأثر ہو کر لکھتے تھے اِسی لیے وہ مقبول بھی ہوتا تھا، اَلبتہ اِبتدائی دَور کی زبان صاف نہیں اَور نہ اُس میں چنداں شعریت ہے مگر قبولیت اُس کو بھی حاصل رہی ہے ،بعد میں جو نصیحت آمیز نظمیں کہی ہیں اُن کی زبان بہت صاف اَور رواں ہے اَور یہی وجہ ہے کہ اُنہیں قبولِ عام اَور شہریت ِدوام حاصل رہاہے۔ آپ کو رسالت مآب ۖ سے بڑی عقیدت اَور بے حد محبت تھی جس پر اِن کے حسبِ ذیل اَشعار شاہد ہیں : یا رسول اللہ یا خیر البشر لیجیے مجھ رُوسیہ کی اَب خبر خود بدولت کے ترحم کے سوا اَب کوئی صورت نہیں آتی نظر ( تحفة الاخیار ترجمہ مشارق الانوار ص:٤٩٤، مطبع اَنوار ِ محمدی لکھنؤ ١٣٠٠ھ) اِسی طرح تحفة الاخیار کے خاتمہ پر ایک نہایت دَرد بھری نظم لکھی ہے جس کا آخری شعر یہ ہے : یارب اِس عاجز کی دُعا کر قبول خاتمہ بالخیر بحقِ رسول مولانا خرم علی پر اِبتدائی دَور ہی میں بہت سے اِعتراضات وارِد ہوگئے، اِس لیے آپ کو اَپنی تالیفات میں اِس کی تردید کرنی پڑی، چنانچہ فرماتے ہیں :