ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2013 |
اكستان |
|
پہلے تو یہ ہے کہ اُسے تمام اَحکام کے متعلق حدیثیں حفظ ہوں۔ رسول اللہ ۖ کے بعد صحابہ کرام اَور اُن کے شاگردوں کے دَور کے تمام اِسلامی ہائی کورٹ اَور سپریم کورٹ کے فیصلے اَور اُن کے فتوے یاد ہوں۔ اُن سب کو حدیث کہاجاتا ہے اَور اُن کی تعداد دس لاکھ سے زیادہ بنتی ہے۔ اِمام اَحمد رحمة اللہ علیہ کے ساتھی اِسحاق رحمة اللہ علیہ کو دس لاکھ حدیثیں یاد تھیں(یعنی مذکوہ روایتیں، فتوے اَور فیصلے) پھر حدیث کا یاد کرلینا ہی کافی نہیں ہے اِس کی تاریخی معلومات نہایت ہی ضروری ہیں کہ یہ روایت کتنے حضرات نے نقل کی ہے اَور اِن روایتوں کی سند کیا ہے، سند میں کتنے نام آرہے ہیں (کتنے راوی ہیں) اَور اُن راویوں کے حالات کیا ہیں، کب پیدا ہوئے ،کہاں کہاں پڑھا، کیسا حافظہ تھا، متقی تھے یا نہیں ، کس کس سے ملے ،کب وفات ہوئی، وغیرہ ۔ پھر اُن کے حافظہ وغیرہ کے بارے میں رائے کیا ٹھہری ۔ یہ خاص قسم کی تاریخ ہے جس میں ہر عالم کے بارے میں رائے لکھی گئی ہے اَور اِس کا وجود اِسلام کے سوا کسی مذہب میں نہیں۔ اِس کا نام '' علم اَسماء الرجال '' ہے۔ اِس کی کتابیں دس دس بارہ بارہ جلدوں میں ہیں ۔حافظ مزِّی، حافظ ذہبی اَور حافظ اِبن حجر کی کتابیں تو عام مل جاتی ہیں لیکن علماء کا حال یہ ہے کہ آج کل بڑے جید علماء وہ شمار ہوتے ہیں جو اِن کا مطالعہ کرتے رہیں۔ یہ کتابیں اَور اِن میں دَرج نام اَور اُن کے حالات سب یاد ہوں ایسا عالم تو دیکھنے میں نہیں آیا۔ حافظ اِبن حجر عسقلانی کہتے ہیں کہ میں نے زمزم یہ دُعا کرتے ہوئے پیا کہ میرا حافظہ اَور علم حافظ ذہبیکی طرح کا ہوجائے۔ حافظ ذہبی کے بارے میں تاج الدین سبکی فرماتے ہیں : ''یوں معلوم ہوتا ہے جیسے ساری اُمت زمین پر یکجا جمع کردی گئی ہے۔ ذہبی ایک ایک آدمی کو دیکھتے جا رہے ہیں اَور اُس کے بارے میں جو باتیں بتلا رہے ہیں وہ اِس طرح کہ جیسے وہ اُس کے ساتھ اُن واقعات کے وقت موجود تھے۔ '' ( مقدمہ سیرُ اَعلام النُبلاء بحوالہ طبقات السبکی ) اِس کی ایک اَور مثال دیتا ہوں کہ