ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2013 |
اكستان |
|
دس برس چھ مہینے پانچ دِن تخت ِ خلافت کو زینت دی۔ فجر کی نماز میں اَبو لو ٔ لو مجوسی غلام کے ہاتھ سے شہید ہوئے اَور یکم محرم ٢٤ھ کو اِس دارِ فانی سے رِحلت فرمائی ،روضۂ نبوی ۖ میں حضرت صدیق رضی اللہ عنہ کے پہلو میں مدفن پایا، مسلمانوں کا اِقبال بھی اِن کے ساتھ دُنیا سے رُخصت ہو گیا۔ نکاح آپ نے کئی کیے لیکن بوقت ِ خلافت صرف ایک بی بی تھیں جن سے بڑی محبت کرتے تھے مگر اِس خیال سے اِن کو طلاق دے دی مبادا یہ کسی معاملے میں یا مقدمے میں کسی کی سفارش کریں پھر ١٧ھ میں اُمِ کلثوم بنت علی سے جو حضرت فاطمہ زہرا کے بطن ِمبارک سے تھیں نکاح کیا اَور خلافِ عادت چالیس ہزار دِرہم مہر مقرر فرمایا۔ اَولاد آپ کی اُم المو منین حضرت حفصہ، عبداللہ، عبیداللہ، عاصم، اَبو شحمہ یعنی عبدالرحمن مجیر تھے۔ حالات قبل اِسلام : آپ رضی اللہ عنہ خاندانِ قریش کے باوجاہت لوگوں میں سے تھے، قریش کے شریف ترین لوگوں میں شمار کیے جاتے تھے، زمانہ ٔ جاہلیت میں سفارت کا کام اِن ہی کے متعلق تھا، جب قریش کو کسی لڑائی میں یا کسی اَور ایسے ہی موقع پر کسی سفیر کے بھیجنے کی ضرورت ہوتی تو اِن ہی کو یہ خدمت سپرد ہوتی، اَبو جہل جو تمام مکہ کا سردار تھا اِن کا ماموں تھا۔ حالات بعد اِسلام قبل ِ ہجرت : ٭ اِن کااِسلام بھی رسولِ خدا ۖ کاایک معجزہ تھا، کئی دِن سے آنحضرت ۖ دُعائیں مانگ رہے تھے کہ یا اللہ ! دین ِ اِسلام کو عمر بن خطاب سے عزت دے۔ وہ دُعائیں آپ ۖ کی مقبول ہوئیں اَور مشیت ِ اِلٰہی نے اِن کو کشاں کشاں دَربارِ نبوت میں پہنچادیا۔ اِزالة الخفاء میں اِس موقع پر کیااچھے اَور سچے الفاظ لکھے ہیں کہ '' تدبیر غیب اَور اخواہی نخواہی بہ اِسلام آورد '' ع گر نیاید بخوشی موئے کشانش آرید