ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2013 |
اكستان |
|
لیکن قرآنِ کریم جو آخری کتابِ اِلٰہی تھی، اِس کی عربی زبان جس کی حفاظت کا اِنتظام بھی نہ تھا کیونکہ وہ ناخواندہ اَور غیر متمدّن قوم کی زبان تھی اُس کو قرآن کی طرح قدرت نے ہمیشہ باقی رکھنا تھا تو اُس کے دائرہ کو وسیع کیا ،نزولِ قرآن کے زمانہ میں وہ صرف حجاز، یمن اَور نجد میں بولی جاتی تھی، اَب اِس کے علاوہ عراق، شام، فلسطین، لبنان، مصر، سوڈان، طرابلس، اَلجزائر، مراکش اَور تیونس میں بولی جاتی ہے اَور باقی عالَم اِسلام اِنڈونیشیا، ملایا، پاکستان، اِیران، ترکی، اَفغانستان وغیرہ کے اہلِ علم بھی اِس کو بولتے اَور سمجھتے ہیں۔ یہی اِس اِلہامی کتاب کی زبان ہے جس کو کم اَزکم بائیس کروڑ اِنسان بولتے ہیں۔ یہ قرآن کی وہ عظمت ہے جو دیگر کتب ِسماویہ کو حاصل نہیں جس کی زبان کے لیے خود قدرت نے میدان صاف کیا، بغیر اِنسانی تدبیر کے اِس کو پھیلایا اَور دیگر کتب ِسماویہ کی زبانوں کو تقریباً ختم کیا۔ ( نَزَلَ بِہِ الرُّوْحُ الْاَمِیْنُ o عَلٰی قَلْبِکَ لِتَکُوْنَ مِنَ الْمُنْذِرِیْنَ o بِلِسَانٍٍ عَرَبِیٍّ مُّبِیْنٍ ) اللہ تعالیٰ نے قرآن رُوح الامین یعنی جبرائیل علیہ السلام کے ذریعہ تم پر یعنی تمہارے دِل پر اُتارا تاکہ تم ڈر سناؤ( اَور نازل شدہ وحی صرف مضمون کی نہیں بلکہ الفاظ کے لباس میں ہے )جو واضح عربی زبان میں ہے۔ ساحروں، کاہنوں اَور شاعروں کی طرح چیستان نہیں اَور نہ اَصل مقصد پیچیدہ ہے اَلبتہ قانونی اَور فقہی اَحکام میں قوتِ اِجتہاد کی ضرورت ہے۔ پند و نصیحت کے لیے قرآن آسان کیا ہے ( وَلَقَدْ یَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّکْرِ ) اِستنباطِ اَحکام کے لیے فرمایا( لَعَلِمَہُ الَّذِیْنَ یَسْتَنْبِطُوْنَہ مِنْھُمْ ) تو جان لیتے اُن اَحکام کو وہ لوگ جو اِستنباط کی اہلیت رکھتے ہیں۔ حفاظتی عظمت : ( اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہ لَحَافِظُوْنَ )ہم نے قرآن کے الفاظ و معانی کو اُتارا ہے اَور ہم ضرور اِس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔ دو بار ''اِنَّا '' اَور دو بار ''لَامْ'' لانا گویا چار تاکیدوں سے اِس مضمون کو جملہ اِسمیہ کے قالب میں مذکور کرنا ہے کہ یہ کتاب لفظ و مفہوم دونوں کے اِعتبار سے محفوظ ہوگی اَور محافظ بھی مخلوق نہیں بلکہ خالق ِکائنات ہے جیسی اُس کی قدرت و قوت لاجواب ہے ویسی اُس کی حفاظت بھی بے نظیر ہوگی جس میں کوئی قوت رَخنہ نہ ڈال سکے گی۔