ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2006 |
اكستان |
|
چلائیں اور اتفاق (جو چلاآرہا تھا) توڑدیں۔ یہ لوگ حضرت معاویہ کے پاس آئے۔ اُنہوں نے جواب دیا :یہاں بھی مہاجرین اور انصار رہتے ہیں، انہیں کیوں اِس معاملہ میں داخل نہیں کیا گیا (ان سے مشورہ کیوں نہیں لیا گیا؟) اِن حضرات نے حضرت معاویہ کا جواب پہنچایا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اِنَّمَا ھٰذَا لِلْبَدْرِ ےِّیْنَ دُوْنَ غَیْرِھِمْ وَلَیْسَ عَلٰی وَجْہِ الْاَرْضِ بَدْرِیّ اِلَّا وَھُوَ مَعِیْ وَقَدْ بَایَعَنِیْ وَقَدْ رَضِیَ فَلَایَغُرَّنَّکُمْ مِّنْ دِیْنِکُمْ وَاَنْفُسِکُمْ۔ (البدایہ والنہایہ ج٧ ص ٢٥٨) ''یہ اختیار اہل بدر کو ہے نہ کہ دوسروں کو اور رُوئے زمین پر کوئی بدری ایسا نہیں ہے جو میرے ساتھ نہ ہو۔ ہر بدری نے مجھ سے بیعت کی ہے اور وہ اِس بیعت پر خوش ہے تو یہ اندازِ فکر (چھوڑوکہیں ایسا نہ ہو کہ یہ) تمہیں اپنے دین او ر جان کے معاملہ میں دھوکہ میں رکھے''۔ عَبِیدہ سلمانی شریح قاضی سے بڑے عالم تھے اور حضرت علقمہ کے بارے میں امام اعظم رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں لَیْسَ بِدُوْنِ ابْنِ عُمَرَ فِی الْفِقْہِ یعنی علم فقہ میں حضرت ابن عمر سے کم پلہ نہیں ہیں اگرچہ صحابی نہیں ہیں۔ (مسند ابی حنیفہ ص ٥٠) اِن کے بارے میں حضرت عبد اللہ بن مسعود نے فرمایا مَااَقْرَئُ شَیْئًا وَلَااَعْلَمُہ اِلَّا عَلْقَمَةُ یَقْرَأُہ وَیَعْلَمُہ میں جو کچھ جانتا یا پڑھتا ہوں علقمہ وہ سب جانتے ہیں اور پڑھتے ہیں۔ (تہذیب التہذیب ج٨ ص ٢٧٨) قاری کا مطلب اُس زمانہ میں یہ تھا کہ اتنا باکمال عالم ہو کہ قاری بھی ہو۔ اِن حضرات نے طے کیا کہ ہر ایک کی ایک ایک بات کے لیے پھیرے کرکے بات پہنچاکر سوال و جواب کی ایسے طریقہ پر تکمیل کریں کہ طرفین کی تشفی ہوجائے ورنہ ہر ایک اِن میں خود بہت بڑا عالم تھا، خود بھی سوال و جواب کرسکتا تھا۔ میں اس طرف توجہ دلانی چاہتا ہوں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی دقت نظر کتنی زیادہ تھی۔ اُنہوں نے حقیقی وجہ بتلائی کہ اِن لوگوں کے نظریات دوسرے ہیں، یہ قرآن پاک سے استدلال کرتے ہیں اور گڑبڑ فتنہ کے وقت یہ باتیں کرتے تھے تواور لوگ بھی ان کے استدلال کی وجہ سے ان کے ساتھ ہوجاتے تھے، ایسی