ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2006 |
اكستان |
|
ُتَأَوِّلین کی جماعت کی یہ بات کوئی اور اُس وقت تک نہیں سمجھا تھا اور کچھ ہی عرصہ بعد یہ بات کھل کر سامنے آگئی کہ خوارج کا گروہ وجود میں آگیا۔ وہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی تکفیر کھل کر کرنے لگے۔ ان کے عقائد کتب کلام میں آج بھی پڑھائے جاتے ہیں کہ وہ مرتکب کبیرہ (کبیرہ گناہ کرنے والے کو) کافر جانتے تھے۔ پھر جب حضرت علی رضی اللہ عنہ نے صفین میں لڑائی بند کرنے اور تحکیم یعنی حَکَموں کے (ثالثی) فیصلہ پر رضامندی ظاہری فرمائی تو ان لوگوں نے ان کی بھی تکفیر شروع کردی۔ حضرت عثمان کے بارے میں ان کا عقیدہ تھا کہ وہ اپنے دور ِخلافت کے آخری چھ سال میں معاذاللہ کافر رہے ہیں اور تحکیم (ثالثی فیصلہ) ماننے کے بعد حضرت علی کو بھی کافر کہنے لگے اور جو انہیں کافر نہ جانے اُسے بھی کافر کہتے تھے اور قتل کردیتے تھے۔ مگر یہ سب باتیں بعد میں ہوئیں۔ حضرت علی اُن کا یہ ذہن پہلے ہی سمجھ چکے تھے کیونکہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت سے پہلے مدینہ میں یہ لوگ ایسی آیات پڑھتے رہے تھے۔ اُن کی تہہ تک دوسرے صحابہ کرام کے ذہن نہیں پہنچتے تھے، ہمیں معتبر روایت سے مثلاً یہ واقعہ ملا ہے۔ یَزِیْدُ بْنُ ہَارُوْنَ عَنِ ابْنِ عَوْنٍ عَنْ مُّحَمَّدِ بْنِ سِیْرِیْنَ قَالَ الخ امام محمد بن سیرین نے فرمایا کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اپنے قصر سے جھانک کر فرمایا۔ کسی آدمی کو لائو میں اس سے قرآن پاک کی تلاوت کرائوں ۔یہ صعصعة بن صوحان کو لائے یہ نوجوان تھا۔ آپ نے فرمایا تمہیں اِس نو عمر کے سوا کوئی اور نہیں ملا ۔ صعصعہ نے کچھ بات کی تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ پڑھو، اس نے تلاوت شروع کی۔ اُذِنَ لِلَّذِیْنَ یُقَاتَلُوْنَ بِاَنَّھُمْ ظُلِمُوْا وَاِنَّ اللّٰہَ عَلٰی نَصْرِھِمْ لَقَدِیْر O ( سُورہ حج آیت نمبر ٣٩ ) ''حکم ہوا اُن لوگوں کو جن سے کافر لڑتے ہیں اس واسطے کے اُن پر ظلم ہوا اور اللہ اُن کی مدد کرنے پر قادر ہے''۔ آپ نے اِرشاد فرمایا یہ آیت تیرے یا تیرے ساتھیوں کے لیے نہیں ہے، یہ میرے اور میرے ساتھیوں کے لیے ہے۔ پھر آپ نے خود اِن آیات کی تلاوت فرمائی وَاِلَی اللّٰہِ عَاقِبَةُ الْاُمُوْرِ تک تلاوت فرمائی۔( مصنف ابن ابی شیبہ ج ٤ ص ٩٨٨) یہ لوگ اپنے آپ کو مظلوم اور حضرت عثمان کو ظالم کہہ رہے تھے۔ (جاری ہے)