ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2006 |
اكستان |
|
میں نے انہیں قتل کیا ہے اور نہ میں نے قتل کا حکم دیا ہے اور نہ میں نے قتل کرنے میں قاتلین کی مدد کی ہے۔ اُنہوں نے یہ پیغام پہنچایا تو حضرت معاویہ نے کہا اگر وہ سچے ہیں تو ہمیں قاتلین عثمان سے بدلہ دلائیں، وہ اُن کے لشکر میں ہیں۔ اُنہوں نے یہ پیغام پہنچایا تو حضرت علی نے جواب دیا : تَأَوَّلَ الْقَوْمُ عَلَیْہِ الْقُرْاٰنَ فِیْ فِتْنَةٍ وَوَقَعَتِ الْفُرْقَةُ لِاَجْلِھَا وَقَتَلُوْہُ فِیْ سُلْطَانِہ وَلَیْسَ لِیْ عَلَیْھِمْ وَسَبِیْل ۔ ''لوگوں نے اُن کے (حضرت عثمان کے) خلاف کارروائی کرنے میں قرآن پاک سے تاویل (استدلال و توجیہ) کرلی تھی اور وہ لوگ فتنہ میں مبتلا تھے۔ ان کی قرآنی تاویل کی وجہ سے لوگوں میں افتراق و انتشار پیدا ہوگیا اور اِن لوگوں نے انہیں ان کی اپنی خلافت کے زمانہ میں شہید کیا ہے۔ میرا اُن لوگوں پر کوئی بس نہ چلتا تھا۔'' (بظاہر یہاں لَیْسَ لِیْ عَلَیْھِمْ وَسَبِیْل میں سلطان کا لفظ رہ گیا ہے وَلَیْسَ لِیْ عَلَیْہِمْ سُلْطَان وَّ سَبِیْل اُس وقت اُن لوگوں پر میری حکومت نہ تھی اور نہ کوئی سبیل تھی کہ میں کچھ کرسکتا۔ عبارت میں وائو موجود ہے سلطان سے مطلب پورا ہوجاتا ہے) ۔ اِنہوں نے حضرت معاویہ کو یہ بات پہنچائی تو اُنہوں نے جواب دیا : اِنْ کَانَ الْاَمْرُ عَلٰی مَایَقُوْلُ فَمَالَہ اَنْفَذَ الْاَمْرَ دُوْنَنَا مِنْ غَیْرِ مَشْوَرَةٍ مِّنَّا وَمِمَّنْ ھٰھُنَا۔ ''اگر یہی بات ہے جیسے کہ وہ کہتے ہیں تو کیا وجہ ہے کہ اُنہوں نے ہمارے بغیر خلافت طے کرلی، نہ ہم سے مشورہ لیا نہ اُن لوگوں (عوام یا خواص) سے جو یہاں ہیں''۔ یہ جواب لے کر حضرت علی کے پاس آئے اُنہوں نے جواب دیا کہ سب لوگ مہاجرین اور انصار کے تابع چلے آرہے ہیں۔ یہی حضرات لوگوں کے لیے ولایت و حکومت کے اور اُن کے دینی معاملات کے گواہ چلے آرہے ہیں۔ یہی لوگ مجھے خلیفہ بنانے پر راضی ہوئے اور اُنہوں نے مجھ سے بیعت کی رَضُوْا وَبَایَعُوْنِیْ۔ اور میں یہ جائز نہیں سمجھتا کہ معاویہ جیسے شخص کو (یہ اختیار دے کر) چھوڑدوں تاکہ وہ اُمت پر حکم