ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2006 |
اكستان |
|
ین میں خلل اندازی کا موقع نہ مل سکا۔ یہ جماعت اِس پر فریب نعرے سے متاثر نہیں ہوئی جسے آج فیشن میں ''اتحادِ ملت'' کا نام دیا جاتا ہے۔ اتحاد ملت کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ ہر نا حق کو اپنے اُوپر چھوڑدیا جائے اور اُس کی بد عقیدگی اور بد عملی پر کوئی نکیر نہ کی جائے، یہ اتحاد نہیں بلکہ مداہنت ہے۔ اگر واقعی اتحاد چاہیے تو وہ صرف اِس طرح ہوگا کہ ہر فرقہ اور ہر جماعت قرآن و سنت کو معیارِ اتباع بنالے اور پھر آنحضرت ۖ کی تربیت ِکاملہ سے پوری طرح فیض یاب ہونے والی عظیم ترین شخصیات جو اُمت میں نبی کے بعد سب سے افضل ہیں یعنی حضرات صحابہ کو ''معیار حق'' تسلیم کرے اور جو عقیدہ اور عمل قرآن و سنت اور حضرات ِصحابہ کے موافق ہو اُسے اختیار کیا جائے اور جو خلاف ہو اُسے ترک کردیا جائے۔ اگر یہ طریقہ اختیار کرلیا گیا تو اُمت میں تفرقہ بندی کی تمام حدیں توڑی جاسکتی ہیں۔ یہ تفرقے پیدا ہی اِسی لیے ہوئے ہیں کہ قرآن و سنت اور صحابہ کا طریقہ چھوڑ کر الگ نظریات و اعمال کو فروغ دے دیا گیا ہے۔ خلاصہ یہ کہ ایسی جماعت کا وجود ناگزیر ہے جو غلط عقائد و نظریات اور بدعات ختم کرنے کے لیے سرگرم عمل رہے۔ (د ) دعوت الی الخیر : یہ بھی دین کا نہایت اہم شعبہ ہے۔ لوگوں کو خیر کی طرف دعوت دینا اور دُنیا میں اچھی باتوں کو فروغ دے کر برائیوں کو مٹانا اُمت ِ محمدیہ کی امتیازی صفت ہے اور اُمت کے ہر فرد کی ذمہ داری ہے اور بالخصوص جب بگاڑ حد سے تجاوز کرجائے اور عبادات سے لے کر معاشرت تک ہر شعبہ دین سے بے بہرہ ہونے لگے تو اُمت کو تباہی سے بچانے کے لیے انفرادی اور اجتماعی ہر طرح کی کوششوں کا تسلسل زیادہ ضروری اور لازم ہوجاتا ہے۔ الحمد للہ ہر زمانہ میں دین کا یہ شعبہ زندہ اور متحرک رہا ہے۔ علماء نے وعظ و نصیحت کے ذریعہ اور صوفیاء نے بیعت و اِرشاد کے ذریعہ برابر دین کی آبیاری کی اور لاکھوں لاکھ لوگ اُن کی محنتوں کی بدولت راہ ِ حق پر گامزن ہوگئے اور اخیر زمانہ میں ''دعوت الی الخیر'' کا یہ مہتم بالشان کام حضرت مولانا شاہ محمد الیاس صاحب کاندھلوی رحمة اللہ علیہ کے بے پایاں خلوص کے ساتھ ''تبلیغی جماعت'' کے نام سے سامنے آیا جو دیکھتے ہی دیکھتے دہلی اور میوات سے نکل کر عالم کے چپہ چپہ پر پھیل گئی اور جگہ جگہ دین کے عنوان پر حرکت میں برکت کے