ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2006 |
اكستان |
|
٢) مسلمان ہونے میں برابری : مسلمان ہونے میں برابری کا اعتبار فقط عجمیوں میں ہے۔ عربوں اور قریش جیسے سیدوں، علویوں اور انصاریوں میں اس کا کچھ اعتبار نہیں ہے۔ تو جو شخص خود مسلمان ہوگیا اور اس کا باپ کافر تھا وہ شخص اس عورت کے برابر کا نہیں جو خود بھی مسلمان ہے اور اس کا باپ کافر تھا وہ شخص اس عورت کے برابر کا نہیں جو خود بھی مسلمان ہے اور اس کا باپ بھی مسلمان تھا۔ اور جو خود بھی مسلمان ہے اور اس کا باپ بھی مسلمان ہے لیکن اس کا دادا مسلمان نہیں وہ اس عورت کے برابر کا نہیں جس کا دادا بھی مسلمان ہے۔ (٣) دینداری میں برابری : اس کا مطلب ہے کہ ایسا شخص جو دین کا پابند نہیں اور بدکار اور بدمعاش ہے وہ نیک بخت، پارسا، دیندار عورت کا کفو نہیں ہے۔ اسی طرح وہ شخص جو بدعتی ہو وہ اہلسنت عورت کا جوڑ نہیں ہے۔ مسئلہ : فاسق شخص کی فاسق بیٹی اور نیک شخص کی فاسق بیٹی کا جوڑ فاسق آدمی ہے جبکہ نیک شخص کی نیک بیٹی اور فاسق شخص کی دیندار بیٹی کا جوڑ دیندار آدمی ہے۔ مسئلہ : اگر فاسق شخص کی دیندار بیٹی کسی فاسق آدمی سے اپنی ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرلے تو یہ نکاح منعقد ہوجائے گا اور لڑکی کے باپ کو اعتراض کا حق حاصل نہ ہوگا کیونکہ لڑکی خود اس نکاح پر راضی ہوئی اور اس کا باپ خود فاسق ہے۔ مسئلہ : اگر نیک شخص کی فاسق لڑکی کسی فاسق لڑکے سے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرلے تو نکاح ہوجائے گا اور ولی کو اعتراض کا حق نہ ہوگا۔ (٤) مال میں برابری : اس کے یہ معنی ہیں کہ بالکل مفلس محتاج مال دار عورت کے برابر کا نہیں ہے اور اگر وہ بالکل مفلس نہیں بلکہ جتنا مہر پہلی رات کو دینے کا دستور ہے اتنا مہر دے سکتا ہے اور روز مرہ کا خرچہ کمالیتا ہے تو بس یہ کافی ہے یہ ضروری نہیں کہ جتنے مالدار لڑکی والے ہیں لڑکا بھی اتنا ہی مال دار ہو یا اس کے قریب قریب ہو۔