ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2006 |
اكستان |
|
حضرت علی نے ابومسلم سے کہا ''آپ کل صبح میرے پاس آئیں'' اور حکم دیا کہ انہیں نہایت عزت و احترام سے رکھا جائے۔ اَگلے روز صبح دم وہ حضرت علی سے ملنے آئے۔ وہ اُس وقت مسجد میں بیٹھے تھے مگر دیکھا کہ کوئی دس ہزار سے زائد اشخاص پوری طرح مسلح ہیں اور پکاررہے ہیں '' ہم سب قاتلین عثمان ہیں۔'' اِس پر ابومسلم نے حضرت علی سے کہا میں اِن لوگوں کو دیکھ رہا ہوں ان پر آپ کا بس نہیں چل سکتا۔ میرا خیال ہے انہیں معلوم ہوگیا ہے کہ میں آپ کے پاس کس غرض سے آیا ہوں اور وہ یہ حرکت اس لیے کررہے ہیں کہ آپ کہیں انہیں میرے حوالے نہ کردیں۔ حضرت علی نے کہا میں نے اِس معاملہ کو خوب چھان پھٹک کردیکھا ہے میری رائے میں ان کا آپ کے یا کسی اور کے سپرد کردینا معاملے کو سُلجھانہیں سکتا۔ (الاخبار الطوال مترجم ص ٣٠٧۔٣٠٩ مطبوعہ مرکزی اُردو بورڈ) حضرت علی کرم اللہ وجہہ' جب صفین پہنچے تو وہاں قُرَّاء عراق نے جن میں حضرت عَبِیْدَہ سلمانی، علقمة بن قیس، عامر بن عبد قیس اور عبد اللہ بن عتبہ، ابن مسعود وغیرہم تھے، حضرت معاویہ (رضی اللہ عنہ وعنہم) کے پاس پہنچے۔ اُنہوں نے حضرت معاویہ سے دریافت کیا آپ کیا چاہتے ہیں؟ اُنہوں نے جواب دیا میں خون عثمان کا بدلہ چاہتا ہوں۔ اُنہوں نے کہا آپ اِس کا بدلہ کس سے لیں گے۔ حضرت معاویہ نے کہا علی سے۔ قراء نے کہا : کیا اُنہوں نے حضرت عثمان کو شہید کیا ہے ۔ حضرت معاویہ : ہاں اور اُنہوں نے قاتلین عثمان کو پناہ دی ہے۔ قراء یہ باتیں کرکے حضرت علی کے پاس آئے ماجرہ سنایا۔ آپ نے فرمایا کَذِبَ لَمْ اَقْتُلْہُ وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ اَنِّیْ لَمْ اَقْتُلْہُ۔ یہ غلط کہتے ہیں میں نے انہیں نہیں قتل کیا اور تم لوگ جانتے ہو کہ میں نے انہیں نہیں قتل کیا۔ یہ لوگ حضرت معاویہ کے پاس گئے یہ جواب پہنچایا۔ اُنہوں نے کہا اگر انہوں نے اپنے ہاتھ سے قتل نہیں کیا تو اُنہوں نے لوگوں کو تو قتل کا حکم دیا تھا۔ یہ حضرات حضرت علی کے پاس آئے اور حضرت معاویہ کی بات دہرائی۔ حضرت علی نے جواب دیا : وَاللّٰہِ لَاقَتَلْتُ وَلَااَمَرْتُ وَلَامَالَیْتُ عَلٰی قَتْلِہ ۔ خدا کی قسم نہ