ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2005 |
اكستان |
|
برابر رہے اور اِس مدت کے دوران کبھی افاقہ نہ ہو۔ لیکن اگر افاقہ ہوتا ہو اور افاقہ کا ایک وقت مقرر ہے مثلاً روزانہ صبح کے وقت میں مرض میں تخفیف ہو جاتی ہے اور کچھ ہوش آجاتا ہے اورتھوڑی دیر افاقہ ہوجاتا ہے پھر اس کے بعد وہ مرض لوٹ آتا ہے اورمریض دوبارہ بے ہوش ہو جاتا ہے تو اِس افاقہ کا اعتبار کیا جائے گا اوراِس افاقہ سے پہلے اگر بے ہوشی ایک دن رات سے کم تھی توبے ہوشی کا حکم باطل ہو جائے گا اوراِن نمازوں کی قضاواجب ہوگی ۔ اوراگر افاقہ کا وقت مقرر نہ ہو بلکہ کبھی یکایک افاقہ ہو جاتا ہے اور تندرستوں کی سی باتیں کرتا ہے پھر بیہوش ہو جاتا ہے تو اِس افاقہ کا اعتبار نہیں یعنی یہ بے ہوشی متصل اور لگاتار سمجھی جائے گی۔ مسئلہ : جنون کا بھی یہی حکم ہے۔ مسئلہ : اگر کسی درندہ ، جانور یا آدمی کے خوف یا سخت بیماری سے ایک دن رات سے زیادہ بیہوش رہا تو اِس سے قضا ساقط ہو جائے گی۔ مسئلہ : اگر شراب پی اور اُس کے نشے کی وجہ سے ایک دن رات سے زیادہ عقل جاتی رہی تو نماز ساقط نہیں ہوگی خواہ بے عقلی کتنے ہی زیادہ زمانے تک رہے اورخواہ شراب دوائی سمجھ کر پی ہو یا کسی نے مجبور کرکے پلادی ہو، تب بھی قضا واجب ہے کیونکہ بندوں کے فعل سے اللہ تعالیٰ کا حق ساقط نہیں ہوتا۔ مسئلہ : یہی حکم آپریشن کے لیے بیہوش کرنے میں بھی ہے۔ مسئلہ : اسی طرح اگر اجوائن خراسانی یا کوئی اور دوائی پی جس سے ایک دن رات سے زیادہ عقل دُرست نہ رہی تو اِس سے نماز ساقط نہیں ہوگی اِس لیے سب وقتوں کی قضا نماز پڑھے۔ مسئلہ : اگر ایک دن رات سے زیادہ سوتا رہا تو یہ سب نمازیں قضا کرے کیونکہ عادتاً ایک دن رات سے زیادہ کوئی نہیں سوتا۔ مسئلہ : اگر کوئی مریض ایسی حالت کوپہنچ گیا کہ غنودگی وغیرہ کی وجہ سے اُس کو رکعتوں کا شمار اور رکوع وسجود وغیرہ یاد نہیں رہتا تو اُس پر اُس وقت کی نمازوں کا ادا کرنا ضروری نہیں بلکہ صحت کے بعد اُن کی قضا پڑھ لے لیکن اگر کوئی شخص اُس کو بتلاتا جائے اوروہ پڑھ لے تو جائز ہے۔ تنبیہہ : یہ بتلانا تعلیم نہیں بلکہ یاد دہانی اور خبردار کرنا ہے، اس لیے یہ نماز کو فاسد نہیں کرتا۔