ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2005 |
اكستان |
|
چھوڑتے لیکن ان مباحث سے فارغ ہونے کے بعد وہ اپنے زمانہ کے حالات کے مطابق عقلی مباحث کا بھی حق ادا کرتے ہیں اوریہ اُن کی تفسیر کا کوئی نقص نہیں بلکہ قابل ِفخر امتیاز ہے ۔ ہاں دُرست یہ ہے کہ محدثین کی تصریح کے مطابق ایک تواُن کی تفسیر میں بعض کمزور روایات راہ پاگئی ہیں ،دوسرے بعض جگہ انہوں نے جواحادیث پر گفتگو کی ہے وہ جمہور علماء کے نقطۂ نظر سے دُرست نہیں ہے۔لیکن اس دنیا میں کسی کا کام خامیوں سے بالکل پاک نہیں ہوتا ، مجموعی حیثیت سے تفسیر کبیر ہمارا ایسا عظیم سرمایہ ہے جو پوری اُمت کے لیے قابل فخر ہے۔ امام رازی کی رفتار تصنیف بھی حیرت انگیز تھی۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ انہوں نے سورة حم السجدة کی تفسیر کل دوروز میں مکمل کی ، اس سورت کی تفسیر باریک ٹائپ اوربڑے سائز کے چالیس صفحات پر مشتمل ہے ، جس کامطلب یہ ہے کہ ایک دن میں بیس صفحات تصنیف کیے۔ سورة توبہ کی تفسیر جو١٩٣ صفحات پر مشتمل ہے، صرف چودہ روز میں مکمل ہوئی یعنی چودہ صفحات روزانہ لکھے گئے ۔ حالانکہ آج ایک دن میں اِس سائز کے چودہ صفحات کو صرف نقل کرنا بھی نہایت مشکل ہے۔ امام رازی کی ساری زندگی منطق ،فلسفہ اورعقلیات میں بسر ہوئی اورانہوں نے اس دائرے میںمجتہدانہ کارنامے انجام دئیے لیکن عمر بھر کے تجربے کے بعد انہوں نے اپنے وصیت نامے میں ایک ایسا جملہ لکھا ہے جو ہر عقل پرست کے یاد رکھنے کے لائق ہے ، فرماتے ہیں کہ : ''میں نے فلسفیانہ اورمتکلمانہ طرزِ استدلال کو جانچا ہے ، لیکن جو فائدہ میں نے قرآن مجید میں پایا ہے ، وہ فلسفیانہ اورمتکلمانہ طریقہ میں نہیں پایا'' ۔( طبقات ) نیز حافظ ابن حجر نے لسان المیزان میں لکھا ہے کہ ''امام رازی علم ُالکلام میں مہارت کے باوجود کہا کرتے تھے کہ جو شخص بوڑھی عورتوں کے دین کا پابند ہو وہی کامیاب ہے ''۔ امام رازی نے اپنی تفسیر سورة فتح تک لکھی تھی کہ ٦٠٦ھ میں ٹھیک عید کے روز تریسٹھ سال کی عمر میں وفات پا گئے اورہرات میں مدفون ہوئے ۔ تفسیر کے باقی تقریباً ساڑھے چار پارے ایک دوسرے بزرگ قاضی شہاب الدین الخوبی نے مکمل کیے (کشف الظنون)۔