ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2005 |
اكستان |
|
بڑھی ہوئی ہے لہٰذا آدمی مسافراُس وقت بنے گا جب دونوں طر ف آبادی سے تجاوز کرجائے اوراِس طرح سے منٰی اورمزدلفہ دونوں ہی مکہ مکرمہ کے حصے قرارپائے۔ ہم کہتے ہیں کہ ایساخیال کرنا صحیح نہیں ہے کیونکہ : ١۔ عبارت کا مطلب یہ ہے کہ آدمی شہر سے نکل کر جس رستے پر جارہا ہے اُس رستے کے قریب تک شہر کی کسی دوسری جانب سے کوئی محلہ بڑھ کر آگیا ہو ۔ اگر صرف ایک طرف سے ایسا ہوتو اِس کا اعتبار نہیں اوراگر دوطرف سے ایسا ہوتو اُس آبادی سے مجاوزت کا اعتبار ہوگا۔ منٰی اورمزدلفہ کی صورت میں جیسا کہ نقشہ سے عیاں ہے ،شمالی جانب جو محلے ہیں وہ رستے سے بہت دُور ہیں اورگزرنے والے کے نہ سامنے آتے ہیں اورنہ اُس کے قریب تک آتے ہیں۔ ٢۔ علامہ شامی رحمہ اللہ کی دوجانب والی بات قابلِ تسلیم نہیں کیونکہ : i۔ یہ بات صرف علامہ شرنبلا لی نے مراقی الفلاح او ر امداد میں لکھی ہے : اذا جاوز بیوت مقامہ ولو بیوت الاخبیة من الجانب الذی خرج منہ ولو حاذاہ فی احد جانبیہ فقط لا یضرہ (حاشیہ طحطاوی علی مراقی الفلاح ص ٢٣٠) ''جب آدمی جانب ِخروج میں اپنی بستی کے مکانا ت سے تجاوز کرجائے تو اگر اُس کے ایک طرف کو آبادی ہو تو اِس سے کچھ فرق نہیں پڑتا''۔ ردالمحتار میں علامہ شامی رحمہ اللہ نے یہ بات امداد سے نقل کی ہے جو اس کی نسبت قاضی خان وغیرہ کی طرف کرتے ہیں ۔ قاضی خان کی طرف اِس کی نسبت صحیح نہیں کیونکہ اُس میں یوں ہے : ویعتبرمجاوزة عمران المصر من الجانب الذی خرج ولا یعتبرمحلة اخری بحذائة من الجانب الآخر (علی ھامش العالمگیریة ص١٦٤ج١) ''جانب ِخروج سے شہر کی آبادی کا اعتبار کیا جاتا ہے اوردوسری جانب سے ایک طرف جو محلہ ہو، اُس کا اعتبار نہیں ہے۔ علامہ شرنبلالی رحمہ اللہ نے یہی بات مراقی الفلاح میں بھی ذکر کی ہے لیکن وہاں کسی اورکا حوالہ ذکرنہیں