ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2004 |
اكستان |
|
العابد کفضل القمر لیلة البدر علی سائر الکواکب وان العلماء ورثة الانبیاء وان الانبیاء لم یورثوا دینارًا ولا درھما وانما ورثوا العلم فمن اخذہ اخذ بحظ وافر'' ٢ ''جو شخص کسی راستے پر علم دین حاصل کرنے کے لیے چلتا ہے اللہ تعالیٰ اُس کو جنت کے راستوں میں سے ایک راستے پر چلا دیتے ہیں۔ فرشتے طالبِ علم کی رضا اور خوشنودی کے لیے اپنے پر بچھا دیتے ہیں اور عالمِ دین کے لیے آسمان وزمین کی سب مخلوق حتی کہ وہ مچھلیاں جوپانی کے اندر ہیں وہ بھی استغفار کرتی ہیں اور عالمِ دین کو عابدپر ایسی فضیلت حاصل ہے جیسے چودہویں کے چاند کو تمام ستاروں پر۔ علماء انبیاء کے وارث ہیں ، انبیاء اپنی وراثت میں دینار ودرہم نہیں چھوڑتے اُن کی میراث علم ہے لہٰذا جس نے علم حاصل کیا اُس نے کامل حصہ (انبیاء کی وراثت کا )پا لیا۔'' اس حدیث شریف میں جو آیا ہے کہ ''فرشتے طالب علم کی رضا اور خوشنودی کے لیے اپنے پر بچھا دیتے ہیں اس کے متعلق شارحین حدیث لکھتے ہیں کہ اس کے مجازی معنی بھی مراد ہو سکتے ہیں اورحقیقی بھی ۔ مجازی معنی مراد لیں تو مطلب ہوگا کہ فرشتے طالبِ علم کا بڑا اعزاز و اکرام کرتے ہیں جیسے ہم اپنے محاورہ میں کہتے ہیں کہ ''ہم آپ کے لیے فرشِ راہ ہیں ،آپ کے لیے پلکیں بچھاتے ہیں''۔ اس کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ ہم دل کے ساتھ آپ کا اعزاز و اکرام کرتے ہیں،یہ مطلب نہیں ہوتا کہ ہم راستہ میں لیٹ جاتے ہیں اور آپ ہمارے اُوپر سے گزرتے ہیں ۔یہ بعینہہ ایسے ہی ہے جیسے قرآن پاک میں ارشاد ہے وَاخْفِضْ لَھُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ اللہ تعالیٰ اولاد کو حکم دے رہے ہیں کہ ماں باپ کے سامنے عاجزی اور نیاز مندی سے اپنے آپ کو جھکا دو اور بچھاد و، اس کا مطلب یہی ہے کہ ماں باپ کے سامنے تواضع اختیار کرو، اُن کا اعزاز واکرام کرو۔ تاہم اس کے حقیقی معنی بھی مراد لیے جا سکتے ہیں ،اس صورت میں مطلب یہی ہو گا کہ فرشتے طالب علم کی رضا وخوشنودی کے لیے اس کے راستے میں اپنے پر بچھا دیتے ہیں اور وہ اُن پروں پرسے گزرتا ہے البتہ چونکہ فرشتے غیر مرئی مخلوق ہیں نظر نہیں آتے اس لیے اُن کا یہ فعل بھی نظر نہیں آتا کبھی ایسا ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ دنیا میں اس کا مشاہدہ کروادیتے ہیں ۔حضرت ملاعلی قاری رحمہ اللہ نے ''مرقاة شرح مشکٰوة'' میں اس سلسلہ کے دوواقعے ذکر کیے ہیں جو سبق آموز بھی ہیں اورعبرت انگیز بھی ،ذیل میں یہ واقعے ذکر کیے جاتے ہیں شاید کسی کے لیے عبرت کا باعث بن جائیں۔ملاحظہ فرمائیے، حضرت ملاعلی قاری رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ٢ مسنداحمد ج ص ترمذی ج ص ابوداود ج ص ابن ماجہ ص مسند دارمی ج ص