ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2004 |
اكستان |
|
آپ ''پٹنہ '' (بہار)کے رہنے والے تھے، لکھنؤ میں پڑھنے آئے اور تحصیلِ علوم کی اور مایہ نازعالم بنے ۔اُسی زمانہ میں سیّد صاحب اپنے وطن مالوف رائے بریلی جاتے ہوئے لکھنؤ قیام فرما ہوئے اُن کے استاذ مولانا محمد اشرف صاحب جو بہت بڑے منطقی فلسفی عالم تھے اپنے اس مایۂ ناز شاگرد کو لے کر سیّد صاحب سے ملنے گئے ،تخلیہ چاہا۔ سیّد صاحب پورے عالم نہ تھے لیکن آیت مبارکہ وما ارسلنٰک الا رحمة للعٰلمین (ہم نے آپ کو اسی لیے بھیجا ہے کہ تمام جہانوں پر رحمت ہو) پر بیان شروع فرمایا ۔یہ سلسلہ بیان دوگھنٹے جاری رہا جس کا اتنا اثرہوا کہ منطق وفلسفہ اور اعتراضات سے ذ ہن خالی ہوگیا اور بقول سوانح نگار : ''دونوں کی داڑھیاں روتے روتے تر ہو گئیں''۔ یہی مولانا ولایت علی صاحب ہیں جو سیّد صاحب کے ساتھ رہے ۔سیّد صاحب کا پٹنہ وغیرہ کا کا میاب دورہ کرایا۔ بقول ڈبلیو ڈبلیو ہنٹر '' اِن کے (سیّد صاحب کے ) مریدوں کی تعداد اس قدر بڑھ گئی تھی کہ ایک باقاعدہ نظامِ حکومت کی ضرورت پیش آئی ۔انہوں نے باقاعدہ اپنے ایجنٹ مقرر کیے تاکہ ہر اس شہر سے جو ان کے راستہ میں پڑتا ہو تجارت کے منافع پر ٹیکس وصول کریں ۔اس کے بعد انہوں نے چار خلیفے مقررکیے یعنی رُوحانی نائب اورایک قاضی القضاة مقرر کیا۔ اور اس کے لیے ایک باقاعدہ فرمان جاری کیا جیسا کہ مسلمان بادشاہ اپنے صو بہ جات میں اپنے گورنر مقرر کرتے وقت کیا کرتے تھے ۔اس طرح پٹنہ میں ایک مستقل مرکز قائم کرنے کے بعد وہ یہاں سے روانہ ہوئے''۔ اس میں ان خلفاء کے نام نہیں لیے گئے غالباً اُن کے نام یہ ہیں : مولانا سیّد مظہر علی صاحب، مولانا الٰہی بخش صاحب ،مولانا ولایت علی صاحب ،مولانا عنایت علی صاحب اور قاضی القضاة مولانا شاہ قاضی احمد حسین صاحب (شاندار ماضی جلد سوم ازاول تا ص٦٨) پھر مولاناولایت علی صاحب نے سیّد صاحب کی شہادت کے بعد ''پٹنہ'' کو بھی مرکز بنایا اور ستھانہ میں بھی جہاں بالاکوٹ سے بچے ہوئے مجاہدین نے نوشہرہ کے علاقہ میں دریائے سندھ سے اوپر ''کوہ ستھانہ'' ٢ میں ( جوساڑھے سات ہزار فٹ کی بلندی پر ہے) اپنا مرکز بنا لیا تھا ۔(جب آریا ترک وطن کرکے کوہ ہندوکش سے گزر کر اس مقام پر پہنچے تھے تو انہوں نے اسے ''مہابن'' کا نام دیا تھا ۔اس وقت یہ بہت عظیم بن تھا) اِدھر پٹنہ کے مرکز سے بنگال وبہار میں اپنے رسائل کے ذریعہ جو سو کے قریب تھے مسلمانوں کو جہاد پر آمادہ کیا اور اُدھر ''ستھانہ''سے جہاد بالسیف بھی کیا ۔سیّد صاحب کے بعد بالکل اسی طرزپر فریضۂ جہاد کی ادائیگی میں آپ ہی اُن کے جانشین ہوئے۔ ٢ آجکل اسے اِسْتَھانہ کہتے ہیں لیکن پشتو میں الف کے بغیر بسکون السین ابتداء بالسکون کے ساتھ اس کاتلفظ ہے۔