ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2003 |
اكستان |
|
ہم کہتے ہیں حکمتِ عملی کا اختلاف علمی اختلاف ہوتا ہے کیونکہ سیاسی حکمتِ عملی کا مطلب ہے سیاسی عمل کی حکمت وعلت ۔ (جاننا چاہیے کہ عام محاورہ میں لوگ حکمت اور علت کو ایک ہی سمجھتے ہیں ) تو ڈاکٹر اسرار صاحب یہ بتاتے ہیں کہ ان کو مولانا مدنی کی سیاست کی علت و حکمت سے یعنی ان کے سیاسی عمل کے علمی پہلوسے اختلاف تھا اور تاحال ہے۔اوائل کے دور میں تو شاید دوسروں کی دیکھا دیکھی یہ اختلاف کرتے ہوں گے لیکن اب تو ایسا نہیں ہے خود ڈاکٹر اسرار صاحب فرماتے ہیں : ''١٩٥٧ء کے بعد کے پینتالیس برس کے دوران میں صرف اللہ کا بندہ اور رسول اللہ ۖ اور صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کا پیروکار ہوں اور اللہ کی کتاب اور سنت رسول میرے رہبر اور میرا ضمیر میرا ''امیر'' رہاہے''۔ (نوائے وقت١٨جنوری ٢٠٠٣) اصل اختلاف اس میں تھا کہ کیا موجودہ حالات میں اور مسلم لیگی قیادت کے کردار کو سامنے رکھتے ہوئے کیا مسلمانوں کو باقی ہندوستان سے کٹ کر صرف ایک ٹکڑے کا مطالبہ کرنا جائز ہے اور کیا اس میں واقعی اسلامی نظام قائم ہو سکے گا ۔یہ مسئلہ شریعت کامسئلہ ہے محض ایک مباح انتظامی مسئلہ نہیں تھا ۔مولانا مدنی کی اپنی رائے تھی اور مولانا تھانوی اور مولانا شبیراحمد عثمانی کی اپنی رائے تھی ۔یہ حضرات شریعت کو سمجھنے والے تھے اس لیے رائے رکھنے کے اہل تھے ۔ڈاکٹر اسرار صاحب کی یہ تصریحات جابجا ملتی ہیں کہ فقہ کے بارے میں ان کا علم بہت محدود ہے اور وہ عالم نہیں ہے لیکن اس کے باوجود ان کا ضمیر خود بخود قرآن وسنت سے رہنمائی لے کر ان کا باکمال امیر بنا ہوا ہے کہ وہ ان کو یہ بھی بتا دیتاہے کہ مولانا مدنی جیسا عالم غلطی کر رہا ہے او ر مولانا مدنی کس شمار میں ہیں ان کے باکمال ضمیر اور عالی دماغ مزاج ائمہ اربعہ اور امام بخاری کے دائروں کے اندر اندر جسکی رائے کو بھی اقرب الی السنة اور اقرب الی الصواب سمجھتے ہیں اس کی رائے کو ترجیح دیتے ہیں۔(جماعت شیخ الہند اور تنظیم اسلامی ص٣٧١) ڈاکٹر اسرار صاحب جو چاہیں لکھیں لیکن ان کی اپنی تحریریں ان کے جہل مرکب کی طرف واضح رہنمائی کیے دے رہی ہیں ۔ مولانا مدنی سے ڈاکٹر اسرار صاحب کا اظہار براء ت : ڈاکٹر اسرار صاحب کا ضمیر ان پر کس طرح سے امیری اور حکمرانی کر رہا ہے اس کی ایک اور مثال ملاحظہ فرمائیے۔ایک تقریب میں جس میں ڈاکٹر اسرار صاحب بھی موجود تھے اور تقریر کر چکے تھے نوائے وقت کے مجید نظامی صاحب نے کہا کہ ''پاکستان میں اسلامی نظام نافذ کرناہے توخدارا اسلام کو اقبال کے ذریعہ سمجھنے کی کوشش کریں اور