ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2003 |
اكستان |
|
ہے اور وہاں مختلف مسافر آکر اپنی نماز پڑھ کرچلے جاتے ہیں تو اس میںافضل یہ ہے کہ ہر فریق علیحدہ علیحدہ اذان اور اقامت کے ساتھ جماعت کرے اور ہر جماعت کا امام ایک ہی جگہ کھڑاہو تو اس میںکوئی کراہت نہیں۔ مسئلہ : قضا نمازوں کے لیے اذان اور اقامت کہے خواہ اکیلا پڑھے یا جماعت سے جبکہ کہیںجنگل میںاور آبادی سے دور ہو۔ اور اگر آبادی میں یا آبادی کی مسجد میںقضا پڑھے تو اگر اکیلا ہو تو اس قدر آواز دسے دے لے کہ خود ہی سن سکے اور اگر جماعت سے پڑھے تو یا تو اذان واقامت نہ کہے یا اتنی آہستہ آواز سے دے کہ دوسرے لوگوں کو معلوم نہ ہو کیونکہ جو کوتاہی ہو گئی اس کا اعلان نہ کرنا چاہیے۔ مسئلہ : شہر یا قصبہ میں جو شخص کسی عذر سے جمعہ کے بجائے ظہرکی نمازپڑھے تو اس کے لیے اذان اور اقامت کہنا سنت نہیںبلکہ مکروہ ہے۔البتہ گائو ں میں صحیح ہے۔ مسئلہ : عرفات او رمزدلفہ میںجو دو نمازوںکو جمع کرتے ہیں توپہلی کے لیے اذان اور اقامت کہے اور دوسری کے لیے صرف اقامت کہے۔ مسجد میں اذان کہنا : مسئلہ : اذان میں دو پہلو ہیں ۔ ایک ذکر الٰہی اور دوسرے لوگوں کو یہ بتانا کہ نماز کا وقت ہو گیا ہے اور جماعت قائم ہونے والی ہے ۔اس دوسرے پہلو کے اعتبار سے ضروری ہے کہ مؤذن خود بلند آواز والا ہو اور ایسی جگہ سے اذان دے کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو علم ہو۔ مسئلہ : جمعہ کی اذانِ ثانی کا مسجد کے اندر خطیب کے سامنے صحابہ رضی اللہ عنہم کے دور سے تعامل چلا آتا ہے کیونکہ اس میں صرف حاضرین (جو پہلی اذان سن کر حاضر ہو چکے ہیں ان )تک آواز پہنچانا مقصود ہے۔ مسئلہ : اگر لائوڈ سپیکر نہ ہو تو مسجد سے باہر یا مسجد کی چھت پر کھڑے ہو کر اذان کہی جائے ۔مسجدنبوی بننے کے بعد حضرت بلال رضی اللہ عنہ مسجد کی چھت پر چڑھ کر اذان کہتے تھے اور مسجد کی چھت بھی مسجد کے حکم میں ہوتی ہے۔ مسئلہ : اگر لائوڈ سپیکر ہو تو اس سے چونکہ آواز بلا کسی خلل کے ہر طرف پہنچ جاتی ہے اس لیے مسجد کے اندر بھی دی جائے تو کراہت نہیں جائز ہے۔ اذان واقامت کی صحت وکمال کی شرائط : مندرجہ ذیل تین صورتوں میںاذان نہیں ہوتی : (١) اگر کسی ادا نماز کے لیے اذان کہی جائے تو اس کے لیے اس نمازکے وقت کا ہونا ضروری ہے۔ اگر وقت آنے