ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2003 |
اكستان |
|
وقت آپ کا کام یہ ہے کہ سنیںاور خاموش رہیں فاذا قرائناہ فا تبع قرآنہ بخاری ج١ص٣ پرحضرت ابن عباس سے اس کی تفسیر یہ منقول ہے کہ جب ہم جبرئیل کی زبانی آپ پر قرآن پڑھیں تو آپ پوری توجہ سے سنیں اور خاموش رہیں اللہ تعالیٰ نے الفاظ ِقرآن کے جمع کرنے اور پڑھانے کی ذمہ داری کے ساتھ ساتھ ایک اور ذمہ داری بھی لی کہ الفاظِ قرآن کے خوبصورت قالب میں پنہاں معانی قرآن کی وضاحت وتفسیر اور الفاظ ِ قرآن کے جلومیں مستور معارف ومسائل او ر علوم و حقائق کی گرہ کشائی آپ سے کرانا وہ بھی ہمارے ذمہ ہے فرمایا ثم ان علینا بیانہ پھر قرآن کا بیان کرانا یعنی قرآن کے معانی و تفسیر کو آپ کی زبان سے بیان کرانا بھی ہمارے ذمہ ہے اس سے معلوم ہوا کہ قرآن کے الفاظ اور الفاظ کے معانی دونوں متعین ہیں اور دونوں منزل من اللّٰہ ہیں ان علینا جمعہ وقرآنہ اور ان علینا بیانہ میںاللہ تعالیٰ کی جانب سے تعین ِالفاظ اور تعین ِمعانی کا واضح اعلان ہے قرآن کریم کے پارہ نمبر ١،٢ ،٤ ،٢٨ میں فرائض نبوت میں سے دو فرض یہ بتائے گئے ہیں :تلاوت کتاب اور تعلیم کتاب ۔تلاوتِ کتاب کا تعلق الفاظ کے ساتھ ہے اور تعلیم کتاب کا تعلق معانی قرآن کے ساتھ پس قرآن نے اپنی حقیقت خودبتادی کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کردہ متعین الفاظ ومتعین معانی کے مجموعہ کا نام قرآن ہے اگر معانی وہی رہیں الفاظ بدل جائیں تو قرآن کا ترجمہ یا ترجمانی ہے قرآن نہیں اور اگر الفاظ وہی رہیں اور معانی بدل جائیں تو اس کا نام تحریف قرآن ہے قرآن نہیں قرآن تبھی قرآن کہلائے گا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل شدہ الفاظ ہوں اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے بیان کردہ معانی ہوں پس ان متعین الفاظ اور متعین معانی کے مجموعہ کا نام قرآن ہے اللہ کروڑوں رحمتیں نازل کرے علماء اصول پر کہ انھوں نے کتاب وسنت کی روشنی میںصدیوں پہلے اصول فقہ کی کتابوں میں قرآن کی اسی حقیقت کو ان لفظوں میںلکھ دیا ہے ۔ وھواسم للنظم والمعنٰی جمیعا کہ قرآن نظم (یعنی الفاظ قرآن ) اور معنی کے مجموعہ کا نام ہے ۔ حسنِ ادب اور حسین تعبیر : قربان جائیے علماء اصول کے حسنِ ادب اور حسین تعبیر پر کہ انہوںنے الفاظ قرآن کو لفظ نظم کے عنوان سے ذکر کیا ہے اگرچہ مصداق دونوں کا ایک ہی ہے ایک ہی حقیقت کے دو مختلف عنوان ہیں ایک ہی معبَّر کی د و مختلف تعبیریں ہیں لیکن اس اختلاف ِ عنوان اور اختلافِ تعبیر سے علماء اصول کے عمیق علم ،اعلیٰ ادب ،حکمت ودانش ،تعلق مع اللہ ،فکر آخرت اور خوفِ خدا کی جھلک خوب نمایاں ہوتی ہے کیونکہ نظم کا معنی ہے دھاگے میں موتیوں کو پر و کر ہار بنانا ۔اور لفظ کا معنی ہے کھجور کی گٹھلی کو منہ سے پھینکنا پس لفظ نظم سے اشارہ ہے کہ الفاظ قرآن موتی ہیںجو فصاحت و بلاغت کی لڑی میں پرو ئے گئے ہیں۔ اسی طرح علماء تفسیر نے علم تفسیرمیں قرآن کے اندر جو فن بلاغت کے اعتبار سے سجع بندی ( یعنی قافیہ بندی ) ہے اس کو