ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2003 |
اكستان |
|
ہم کہتے ہیں : مجلس تحقیق والوں کا یہ کہنا کہ ''کسی بھی فقہی کتاب میں اس (بات )کی ( کہ کان میں دوا ڈالنے سے روزہ کیوں فاسد ہوگا )کوئی دلیل حدیث مرفوع ، موقوف یا مقطوع کی صورت میں بیان نہیںکی گئی '' قابلِ تسلیم نہیں۔خود انہی کی ذکر کردہ عبارات نمبر١٩ میں یہ ہے ۔ وفی الھدایة : ومن احتقن او استعط او اقطر فی اذنہ افطر لقولہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم الفطر مما دخل ہدایہ میں ہے جس شخص نے حقنہ لیا یا ناک میں دوا ڈالی یا کان میں قطرے ٹپکائے تو اس کا روزہ ٹوٹ گیا کیونکہ نبی ۖ کا ارشاد ہے جسم میں داخل ہونے والی چیز سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔ سوچنے کی بات ہے کہ صاحب ِہدایہ افطار فی الاذن (کان میں قطرے ٹپکانے ) کی صورت میں افطار کا فتوٰی دے رہے ہیں اور اس کی دلیل میں مرفوع حدیث کو ذکر کر رہے ہین ۔اتنی ظاہر اور بدیہی بات کا دار العلوم کراچی کی مجلس تحقیق سرے سے انکار کردے تو تعجب کی بات ہے ۔ اس مرفوع حدیث کے بعد صاحب ہدایہ نے اپنے معمول کے مطابق عقلی دلیل یوں ذکر کی ولوجود معنی الفطر وھو وصول مافیہ صلاح البدن الی الجوف۔ اور اس لیے کہ روزہ ٹوٹنے کی وجہ پائی جاتی ہے جو جوف میں مفید بدن چیز کا پہنچنا ہے) صاحب ہدایہ کا یہ عمل نہ صرف یہ کہ خود واضح ہے بلکہ دوسری عبارتوں کی بھی حل کرتا ہے ۔صاحب ہدایہ کی ذکر کردہ نقلی دلیل یعنی مرفوع حدیث کو صاحب اعلاء السنن نے بھی من وعن اختیار کیا ہے جو کہ ایک مزید تائید ہے۔ ودلت ھذہ الاحادیث علی ما فی الھدایة ان من احتقن اواستعط اواقطر فی اذنہ افطر(اعلاء السنن ص ١٢٦ج٩) یہ احادیث ہدایہ کے اس مسئلہ کی دلیل میں کہ جس شخص نے حقنہ لیا یا ناک میں دواڈالی یا کان میں قطرے ڈالے تو اس کا روزہ ٹوٹ جاتاہے۔ لیکن مجلس تحقیق والے اس کو یوں کہہ کر گزر گئے ہیں کہ'' بعض عبارات میں الفطر مما دخل لا مما خرج کو بنیاد بنایاگیا ہے ''۔اور اس طرح سے انہوں نے ان الفاظ کے مرفوع حدیث ہونے کی حیثیت کو بالکل مٹا کر رکھ دیا۔ رہی صاحب ہدایہ کی ذکر کردہ عقلی دلیل تو یہ وہی ہے جس کو مجلس تحقیق والوں کے بقول ''اور بعض عبارتوں میں