ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2003 |
اكستان |
|
روضۂ مطہرہ سے آپ کو سلام کا جواب ملا : مولانا قاضی سجاد حسین صاحب صدرالمدرسین مدرسہ عالیہ فتحپوری (دہلی ) تحریر فرماتے ہیں : حضرت مولانا مشتاق احمدصاحب انبیٹھوی مرحوم مفتی مالیر کوٹلہ حضرت مولانا خلیل احمدصاحب سہارنپوری رحمة اللہ علیہ کے ہم عصر تھے جن کو خدا نے علم ظاہری کے ساتھ تقوٰی اور طہارت باطنی کی دولت سے بھی نوازا تھا صاحبِ سلسلہ بزرگ تھے اور تقریباً سو سال کی عمر میں اب (٥٨ئ)سے تقریباً ١٥ سال قبل عالم آخرت کی طرف رحلت فرما ہوئے اس خادم کو مرحوم سے شرفِ نیاز حاصل تھا جب کبھی دہلی تشریف فرماہوتے اکثر و بیشتر حاضری کی سعادت حاصل ہوتی تھی چونکہ حضرت شیخ سے بھی اس خادم کو شرفِ تلمذ حاصل ہے ۔اس تعلق کے لحاظ سے مرحوم سے اثنائے ملاقات حضرت شیخ کا بھی ذکر آجایا کرتا تھا ایک ملاقات میں مرحوم نے فرمایا کہ : ایک بار زیارتِ بیت اللہ سے فراغت کے بعد دربارِ رسالت میں حاضری ہوئی تو مدینہ طیبہ کے دورانِ قیام مشائخ وقت سے یہ تذکرہ سنا کہ اِ مسال روضۂ اطہر سے عجیب کرامت کا ظہور ہوا ایک ہندی نوجوان نے جب بارگاہ رسالت میں حاضر ہوکر صلٰو ة وسلام پڑھا تو دربارِ رسالت سے ''وعلیکم السلام یا ولدی '' کے پیارے الفاظ سے اس کو جواب ملا ۔مولانا مرحوم نے فرمایا اس واقعہ کو سُن کر قلب پر ایک خاص اثر ہوا مزید خوشی کا سبب یہ بھی تھا کہ یہ سعادت ہندی نوجوان کو نصیب ہوئی ہے ۔دل تڑپ اُٹھا اور اس ہندی نوجوان کی جستجو شروع کی تاکہ اس محبوب بارگاہ رسالت کی زیارت سے مشرف ہوسکوں اور خود اس واقعہ کی بھی تصدیق کرلوں تحقیق کے بعد پتہ چلا کہ وہ ہندی نوجوان سیّد حبیب اللہ مہاجرمدنی کا فرزند ارجمند ہے ۔مرحوم نے فرمایا کہ سیّد صاحب سے ایک گونہ تعارف وتعلق بھی تھا گھر پر پہنچاملاقات کی اپنے اس دوست کے سعادت مند سپوت ہندی نوجوان کو ساتھ لے کر گوشۂ تنہائی میں چلا گیااپنی طلب وجستجو کا راز بتایا اور واقعہ کی تصدیق کی ابتدا ء ً خاموشی اختیار کی،لیکن اصرار کے بعد کہا''بے شک جو آپ نے سُنا وہ صحیح ہے ''۔یہ واقعہ بیان فرمانے کے بعد مولانا مرحوم نے فرمایا: سمجھے ؟ یہ ہندی نوجوان کون تھا؟ یہی تمہارے استاذ مولاناحسین احمد ۔ اللہ تعالیٰ حافظ وناصر ہے : مولانا عطاء اللہ صاحب بخاری پر جس زمانہ میں سر سکندر حیات کی حکومت نے ایک مقدمہ چلا رکھا تھا جس میں