ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2003 |
اكستان |
|
رعایت فاصلہ کے ساتھ تعبیر کیا ہے یعنی آیات یا جملات کا اختتام ایک جیسے لفظ پرہو جیسے والضحی واللیل اذا سجٰی۔ماودعک ربک وماقلٰی ۔وللآخرة خیرلک من الاولٰی اس کو علمِ بلاغت کی اصطلاح میں سجع بندی کہا جاتا ہے ۔جوقرآن کریم میں بہت ہی اعلیٰ معیار پر موجود ہے لیکن سجع کا معنٰی کبوتری کا آواز کرنا ۔اس لیے مفسرین حضرات نے اس تعبیر کو قرآن کریم کے لیے ناپسند کیا اور اس کی جگہ رعایت فاصلہ کی تعبیر اختیار کی ہے فقہ حنفی کے مطابق اگر بدن یا کپڑے پرایک درہم کی مقدار نجاست لگی ہوئی ہو اور لا علمی کی حالت میں نماز پڑھ لی جائے تو بہتر یہ ہے کہ اس نماز کو دوبارہ پڑھا جائے تاہم اگر دوبارہ نہ بھی پڑھی جائے تو فرض ادا ہو جاتا ہے اور مقدارِدرہم نجاست معاف ہے اس کی دلیل حد یث میں موجود ہے حدیث پاک میں ہے کہ صحابہ کرام پتھر کے ساتھ استنجا ء پر اکتفا ء کرتے پھر اسی حالت میں وضو کرکے نماز ادا کرتے حالانکہ پتھر مقلل نجاست ہے مزیل نجاست نہیں اس کے باوجود صحابہ کرام اس نماز کا اعادہ نہیں کرتے تھے اس سے ثابت ہوا کہ اگر مخرج براز (یعنی مقعد) کی مقدار نجاست لگی ہوئی ہوتو وہ معاف ہے لیکن فقہا ء کرام کا حسنِ ادب ملاحظہ کیجیے کہ اس مسئلہ کے بیان میں انہوں نے مقعد یا مخرج براز یا محل استنجاء کے غیر پسندیدہ لفظ استعمال کرنے کی بجائے ''مقدار درہم'' کی تعبیر اختیار کی ہے (مبسوط سرخسی )۔ اندازہ کیجیے کہ جب علماء وفقہا ء لفظی تعبیر میں اتنی احتیاط کرتے ہیں تو تحقیق معانی او ر تحقیق ِمسائل میں وہ کیوں احتیاط نہ کریں گے؟ یقینا علماء حضرات معانی و مسائل کی تحقیق میں اس سے کہیں زیادہ احتیاظ کرتے تھے کیونکہ اگر تعبیر میںبے احتیاطی ہو جائے تو اس پر مؤاخذہ نہیں لیکن معانی ومسائل کی بے احتیاطی اور تغافل پر سخت مؤاخذہ ہے اس لیے موجودہ دور کے آزاد منش محققین کے مقابلہ میںزمانہ ماضی کے فقہا ء کی تحقیقات زیادہ قابلِ اعتماد ہیں ۔حکیم الامت شاعرِ مشرق علامہ ا قبال نے سچ کہا ہے : زا جتھاد عالمانِ کوتاہ نظر اقتدائِ رفتگاں محفوظ تر حقیقتِ حدیث : جب یہ بات معلوم ہوچکی کہ قرآن الفاظ ومعانی کے مجموعہ کانام ہے تو اب یہ بھی معلوم کرلیجیے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے معانی سکھانے اور سمجھانے کے لیے کتاب اللہ کے ساتھ رسول اللہ ۖ کو بھی مبعوث فرمایا مبعوث فرماکر بعثت نبوی کے اساسی وبنیادی مقصد کی وضاحت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا وانزلنا الیک الذکرلتبین للناس ما نزل الیھمترجمہ: اور ہم نے اتاری تجھ پر یہ یاداشت کہ تو کھول دے لوگوں کے سامنے وہ چیز جو اتری ان کے واسطے چنانچہ آپ نے کتاب اللہ کے معانی کو اللہ تعالیٰ کی رہنمائی اور نگرانی میں خوب کھول کر بیان فرمایا ۔ اور دشمنانِ دین کی پروا کیے بغیر بیان فرمایا ۔اس تبیین کتاب کی دو قسمیں ہیں (١) آپ نے قرآن کریم کی اپنے زریں اقوال کے ذریعہ تفسیر