ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2003 |
اكستان |
|
سے کچھ آگے گزرا تو لبِ سڑک کھڑے ہوئے مشتاقانِ دید سے معلوم ہوا کہ حضرت ابھی نوشہرہ تشریف لارہے ہیں میں وہیں بس سے اتر کر جان نثاروں کی صف میں کھڑا ہوگیا تھوڑی دیر کے بعد کوکبِ جلال وجمال حسینیت کا پرچم لہراتاہوا جلوہ افروز ہوا تقریباً چارمیل کا فاصلہ طے ہوکر جلسہ گاہ میں تشریف فرما ہوئے ،جہاں پہلے سے تقریر کا انتظام کیا گیا تھا ۔حضرت مولانا حفظ الرحمن صاحب کی تقریر کے بعد حضرت نے ارشادات سے نوازا ۔پروگرام ختم ہونے کے بعد میں نے واپسی کے بارے میں دریافت کیا ۔آپ نے حضرت بادشاہ گل صاحب سے فرمادیا کہ پروگرام بتا دیں ۔ حضرت تو کسی اور جگہ تشریف لے گئے اور میں سیدھا گھر چلا آیا اور یہاں آکر مشتاقانِ دیدکو اطلاع کردی کہ کل ٢٨ جنوری کو صبر حسین کا علمبردار کیمبلپور سے گزرے گا چنانچہ اکثر احباب ٢٨ کو کیمبلپور پہنچ گئے ،شام کوحضرت کے استقبال او ر زیارت کے لیے مسلمانانِ کیمبلپور کا ایک انبوہ جس کی قیادت میں سید میر حضرت شاہ صاحب مرحوم ایڈوکیٹ پیش پیش تھے ریلوے اسٹیشن پر پہنچا گاڑی کے پہنچتے ہی حضرت نے سب سے مصافحہ فرمایا اور اسٹیشن کے برآمدہ میںنماز باجماعت ادا فرمائی ،جس کے امام آپ خود بنے ۔جب ریل کیمبلپورسے چلی تو یہ سیہ کار بھی ڈبہ میں سوار ہو گیا ۔ٹکٹ پہلے ہی راولپنڈی کا لے رکھا تھا ،گاڑی میں کھانا گرم کیا گیا او ر اس (راقم الحروف )نے میزبانوں کے بادشاہ کے ساتھ کھانا کھایا۔کتنا پرلطف اور پر کیف وہ منظرتھا ۔کھانے کے بعد آپ اپنی برتھ پر لیٹ گئے احقر آگے بڑھا اور پائوں دبانے کی سعادت حاصل کرنی شروع کردی دل میں ڈر رہا تھا کہ یہ پیکرِ انکسار ومجسمہ تواضع مجھ کو روک نہ دیں مگر اس آن دلربائی کے قربان کچھ بھی نہ فرمایا۔ جی کھول کر سعادت حاصل کی حتی کہ گولڑہ کے اسٹیشن پر ریل آکر کھڑی ہوئی ۔راستہ میں کسی بھی اسٹیشن پر کچھ دریافت نہ فرمایا تھا لیکن یہاں پہنچتے ہی فرمایا کون سا اسٹیشن ہے؟ میںنے عرض کیا کہ ''گولڑہ '' ہے۔یہ سُن کر فرمایا گولڑہ شریف ! (جہاں تک خیال ہے چونکہ ) حاجی صاحب نوراللہ مرقدہ کے گلشنِ صابری کا ایک سدا بہار پھول یہاں بھی عطر بیز ہے ۔اسی لیے اس مقام کی جانب خصوصی طورپر آپ متوجہ ہوئے۔( انتھٰی بلفظہ بتغییر یسیر ) تصرف باطنی : حاجی احمد حسین صاحب لاہرپوری تحریر فرماتے ہیں کہ : ابتدا ء میں شامتِ اعمال سے فجر و ظہر کے وقت میری آنکھ نہ کھلتی تھی اور نماز فوت ہو جایا کرتی تھی۔میں نے اپنی حالت سے حضرت کو مطلع کیا ۔سخت تنبیہ فرمائی ۔چنانچہ مکتوب نمبر ٢٨ ص٧٧ مکتوباتِ شیخ الاسلام میں اسی طرف اشارہ ہے ۔اس کے بعد سے میری یہ کیفیت ہو گئی کہ بلا ناغہ فجر و ظہر کے وقت خواب میں حضرت کو غصے کی حالت میں فرماتے دیکھتا تھا کہ کیوں نماز پڑھنے کا ارادہ نہیں ہے ؟میں گھبرا کر اُٹھ بیٹھتا تھا۔یہ کیفیت تقریباً ایک ماہ رہی جب اچھی طرح نماز کا پابند ہوگیا یہ کیفیت ختم ہوگئی ۔ (بقیہ صفحہ ٦٣ )