ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2003 |
اكستان |
|
باب : ١٠ قسط : ٢٠ دینی مسائل ( اذان او ر اقامت کا بیان ) اذان کا لغوی معنی ہے خبر دار کرنا اور شریعت میں ان مخصوص اور مرتب الفاظ کو کہ جن کے ذریعے سے نماز کے بارے میں خبر دار کیا جاتاہے اذان کہتے ہیں۔ اذان کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ اذان دینے والا دونوں حدثوں سے پاک ہوکر اور اگر لائوڈ سپیکر نہ ہو تو کسی اونچے مقام پر خواہ مسجد سے علیحدہ ہو یا مسجد کی چھت پر قبلہ رو کھڑاہو اور اپنے دونوں کانوں کے سوراخوں کو کلمہ کی انگلی سے بند کرکے اپنی طاقت کے موافق بلند آواز سے ان کلمات کو کہے اللّٰہ اکبر چار بار ، پھر اشہد ان لا الہ الا اللّٰہ دو مرتبہ پھر اشھد ان محمد رسول اللّٰہ دو مرتبہ پھر حی علی الصلوہ دو مرتبہ پھر حی علی الفلاح دو مرتبہ پھر اللّٰہ اکبردو مرتبہ پھر لاالہ الا اللّٰہ ایک مرتبہ اور حی الصلوہ کہتے وقت اپنے منہ کو دا ہنی طرف اور حی علی الفلاح کہتے وقت اپنے منہ کو بائیں طرف پھیر لیا کرے اس طرح کہ سینہ اور قدم قبلہ سے نہ پھرنے پائیں اور فجر کی اذان میں حی علی الفلاح کے بعد الصلوة خیر من النوم بھی دو مرتبہ کہے۔ پس کل الفاظ اذان کے پندرہ ہوئے اور فجر کی اذان میں سترہ ۔ اذان اور اقامت میں فرق : اقامت کا طریقہ بھی یہی ہے صرف فرق اس قدر ہے کہ اگر لائوڈ سپیکر نہ ہو تو اذان مسجد سے باہر کسی اونچے مقام پر یا مسجد کی چھت پر کہی جاتی ہے اور اقامت مسجد کے اندر اور اذان بلند آواز سے کہی جاتی ہے اور اقامت پست آواز سے اور اقامت میں الصلوة خیر من النوم نہیں کہا جاتا بلکہ بجائے اس کے پانچوں وقت میں قد قامت الصلوة دو مرتبہ کہے اور اقامت کے وقت کانوں کے سوراخوں کا بند کرنا بھی نہیں کیونکہ کان کے سوراخ آواز بلند ہونے کے لیے بند کیے جاتے ہیں ۔ اور اقامت میں حی علی الصلوہ اور حی علی الفلاح کہتے وقت دائیں بائیں جانب منہ پھیرنا بھی نہیں اگرچہ بعض فقہا ء نے اقامت میں بھی پھیرنے کا کہا ہے۔ اذان و ا قامت کے احکام : مسئلہ : پانچوں وقت کی فرض عین نمازوں اور جمعہ کو جماعت سے ادا کرنے کے لیے اذان دینا مردں پر سنت