ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2003 |
اكستان |
|
اگر ہم سیاست کو سمجھنا چاہتے ہیں تو پاکستان میں قائد اعظم کی سیاست رائج کریں ''۔ ''ڈاکٹر اسرار صاحب ایک جانب اقبال کے شیدائی ہیں تو دوسری جانب مولانا مدنی کے پیروکار ہیں حالانکہ مدنی اقبال ، قائداعظم اور پاکستان کا مخالف تھا؟حیرت ہے کہ یہی معاملہ فرزند اقبال ڈاکٹر جاوید اقبال کا بھی ہے کہ وہ بھی کہتے ہیں کہ اقبال بھی ٹھیک تھا ا ور مدنی بھی ٹھیک تھا''۔ غرض مجید نظامی صاحب نے اسلام ،سیاست اور مسئلہ قومیت کی بات کی ۔یہ تینوں امور شریعت کے ہیں اس لیے ڈاکٹر اسرار صاحب پر لازم تھا کہ وہ جواب میں کہتے کہ امور ِشرعیہ میں کسی اچھے عالم یا مولانا مدنی کے پیروکار ہونے میں کیا حرج ہے لیکن اس کے برعکس ڈاکٹر اسرار صاحب نے مجید نظامی صاحب کے سامنے اپنی صفائی پیش کرنا ضروری سمجھا ( نہ جانے خاموش رہنے میں کونسا بھونچال آجاتا؟ ) او ر اطلاق کے ساتھ یوں کہا کہ ''میں مولانا مدنی کا پیروکار نہیں ہوں''۔اگر کہنا ہی تھا تو مقید کرکے یوں کہتے کہ میں سیاست میں مولانا مدنی کا پیرکار نہیں ہوں ۔لیکن جب مطلق پس منظر میں مطلق الفاظ کہے تو مجید نظا می صاحب نے فوراً ہی ان کی گرفت کرلی اور رپورٹروں سے یہ کہا کہ نوٹ کرلو'' ڈاکٹر صاحب مدنی سے اظہار براء ت کر رہے ہیں ''۔ مولانا محمود میاں کی اس پر گرفت سے ڈاکٹر اسرارصاحب کو اپنی پگڑی تو اچھلتی ہوئی نظر آگئی لیکن جب مجیدنظامی صاحب اپنی باتوں سے مولانا سید حسین احمد مدنی رحمہ اللہ کی پگڑی اچھال رہے تھے تو ڈاکٹر اسرار صاحب کے باکمال ضمیر اور عالی دماغ مزاج نے اس میں کوئی باک نہ سمجھا کہ اچھلتی پگڑی کو ایک اچھا لا خود بھی دیدیں۔ شریف النسب اور شریف النفس واقعی بڑوںکی پگڑیاں نہیں اچھالاکرتے لیکن اگر بڑے اپنی بڑائی کو چھوڑ بیٹھیں اور دوسرے واجب الاحترام لوگوں کی ہی نہیں دین کی پگڑی بھی اچھالنے لگیں تو وہ بڑے ہی کہاں رہے۔