ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2003 |
اكستان |
|
الفطر مما دخل ای جوف من اجواف البدن من منفذ ای منفذ کان یعنی جو کسی منفذ سے کسی جوف میں داخل ہو اس سے روزہ ٹوٹتا ہے۔ ہمارے دلائل یہ ہیں : (١) حدیث میں جوف معدہ یا جوف دماغ میں وصول کی قید پر کوئی الفاظ یاقرائن دلالت نہیں کرتے ۔ فقہا ء کا فہم تومسلم ہے لیکن ائمہ احناف نے تو کہیں اس حدیث کے مقید ہونے کی تصریح نہیں کی جس طرح کراچی کے دارالعلوم اور دارالافتاء والارشاد (غالباً) کرتے ہیں ۔اور یہ قوی احتمال ہے کہ بعد کے فقہا ء حضرات کو اپنے دور کی طبی تحقیقات کے مطابق نقلی وعقلی دلائل میں تو افق نظر آیا تو انہوں نے عقلی دلائل پر پورا زورڈال دیا لیکن اس میں خفا نہیںکہ اصل اعتبار نقلی دلیل کو حاصل ہوتا ہے۔ (٢) امام محمد اپنی کتاب الاصل میں ذکر کرتے ہیں : قال ابوحنیفة السعوط والحقنة فی شھر رمضان یوجبان القضا ء ولا کفارة علیہ و کذ لک ما اقطر فی اذنہ۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے حلق تک یادماغ تک وصول او رعدم وصول کا اعتبار نہیں کیا بلکہ مطلق اقطار فی الاذن کو مفسد صوم کہا اور اس کی دلیل میں صاحب ہدایہ نے مذکورہ بالامرفوع حدیث ذکر کی۔ (٣) دارالعلوم کراچی اور دارالافتاء والارشاد والوں نے جس قید کے ساتھ حدیث کو مقید مانا ہے اس کے لیے تشریح بدن کی ضرورت ہوگی۔ کان میں بھی احلیل میں بھی ،مثانہ میںبھی اور فرج داخل میں بھی بلکہ جوف سینہ میں بھی۔ حالانکہ یہ طے شدہ بات ہے کہ شریعت نے ہمیں امة امیة کہہ کر تشریح بدن جیسی تدقیقات کا مکلف نہیں بنایا بلکہ تشریح بدن عام طور سے انسانی لاش کی کانٹ چھانٹ پر موقوف ہے جبکہ ہمیں اس موقوف علیہ کی اجازت ہی نہیں دی ۔اور جس چیز کی نہ ہمیں اجازت دی اور نہ ہمیں اس کا مکلف بنایا اس کے لیے ہم ابنائے زمانہ کی تحقیقات و تدقیقات کے محتاج ہوں یہ بات بھی قابلِ قبول نہیں ۔فقط واللہ تعالیٰ اعلم