ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2003 |
اكستان |
|
حضرت آقائے نامدار ۖ کی زوجہ مطہرہ تھیں حضرت اُم ِ سلمہ رضی اللہ عنہا تو اُن کا بھی واقعہ ہے اور دوسرا واقعہ حضرت اُم فضل بنت حارث کا ہے اورتیسرا حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کا ہے ۔حضرت اُم ِ فضل تو فرماتی ہیں کہ میں ایک دفعہ جناب رسول ۖ کے پاس گئی وہاں جا کر انھوں نے کہا میں نے آج جو خواب دیکھا ہے وہ بڑا بُرا ہے دریافت فرمایا کہ کیا ہے وہ ؟توکہنے لگیں انہ شدید وہ بہت سخت ہے تو دریافت فرمایا آپ نے وماھو کیا ہے آخر ؟کہنے لگیں میں نے ایسے دیکھا ہے کہ جیسے جناب کے جسم مبارک کا کوئی حصہ کٹ گیا ہے وہ میری گود میں آگیا ہے۔اب جسمِ اطہر کو اس طرح سے کٹتا ہوا دیکھنا ایک مسلمان کے لیے بہت عجیب سی بات تھی اور تکلیف دہ بات تھی اور یہی اُن کے ذہن میں تھی اسی کو وہ کہتی تھیں کہ بہت سخت ہے وہ خواب یعنی گراں گزرتا ہے تو آقائے نامدار ۖ نے ارشاد فرمایا را ٔیتِ خیرا تم نے یہ اچھا خواب دیکھا ہے اس کی تعبیر یہ ہے کہ تلد فاطمة انشاء اللّٰہ غلاما انشاء اللہ فاطمہ کے بچہ ہوگا یکون فی حجرک اور وہ تمہاری گود میں آئے گا یہ اس کی تعبیر ہے اس کے بعد حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے فرزند تولد ہوئے حضرت حسین رضی اللہ عنہ ۔وہ فرماتی ہیں فکان فی حجری واقعی ایسے ہی ہوا وہ میری گود میں رہتے ۔کما قال رسول اللّٰہ ۖ جیسے کہ جناب رسول اللہ ۖ نے فرمایا تھا۔ یہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی اہلیہ ہیں رسول اللہ ۖ کی چچی ہیں کہتی ہیں کہ انہی دنوں میں جب میں ان کی پرورش کر رہی تھی وہ میرے گود میں تھے ایسے ہوا ایک دن کہ میں آقائے نامدار ۖ کی خدمت میںگئی اور جاکر میں نے اس بچے کو ان کی گود میں رکھ دیا وہ کہتی ہیں کہ میں ذرا اِدھراُدھر متوجہ ہوئی اور پھر مُڑ کر دیکھا تو جناب رسول اللہ ۖکی مبارک آنکھوں میں آنسو تھے کہنے لگی میں نے کہا یا نبی اللّٰہ بابی انت وامی مالک کیا بات ہوئی تو ارشاد فرمایاکہ میرے پاس جبرئیل علیہ السلام آئے تھے انھوں نے مجھے یہ بتایا کہ میری اُمت میرے اس بیٹے کو عنقریب مار دے گی ۔فقلت ھذا میں نے پوچھا اسے قال نعم تو جبرئیل علیہ السلام نے جواب دیا کہ ہاںاسے ۔واتانی بتربة من تربتہ حمرائجہاں یہ شہید ہوں گے وہاں کی مٹی بھی دکھائی انھوںنے مجھے ،کہ یہ ہے مٹی سُرخ رنگ کی جیسے خون سے متاثر ہو کر مٹی کا رنگ ہو جاتا ہے ۔حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا یہ ہوا تھا کہ ان کی رائے یہ تھی کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کوفہ نہ جائیں اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا جانا جو تھا جیسے میں نے عرض کیا وہ اہلِ کوفہ کے بلانے پر تھا۔ اہلِ بیعت ِرضوان نے بھی آپ کو کوفہ آنے کی دعوت دی تھی : اہلِ کوفہ میں بُلانے والوں میں صحابہ کرام بھی تھے بلکہ ایسے بڑے صحابی بھی تھے جو اہلِ بیعت ِرضوان تھے بیعتِ رضوان والوں کے بارے میں بڑی فضیلت آئی ہے ابنِ تیمیہ نے بھی لکھا ہے ھٰولا ء لاید خل النار منھم