ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2003 |
اكستان |
|
حد۔یہ لوگ ایسے ہیں کہ ان میں سے کوئی بھی جہنم میں نہیں جائے گا ۔قرآن پاک میں بھی آیا ہے لقد رضی اللّٰہ عن المؤمنین اذیبایعونک تحت الشجرة فعلم مافی قلوبھم فانزل السکینة علیہم یہ سُورہ انافتحنا میںچھبیسویںپارہ میں اللہ تعالیٰ کی ان سے خوشنودی کی بشارت ہے اور اللہ تعالیٰ جس سے خوش ہو جائیں جس پر رحمت کی نظر فرمالیںتو اُسے پھر عذاب نہیں ہوتا یعنی اُس سے اللہ تعالیٰ ایسے کاموں کی قوت سلب کر لیتے ہیں جو اُس کی ناراضگی کا سبب بنے اُس سے ایسے بُرے کام ہوتے ہی نہیں۔ حدیث شریف کی اہم تشریح : اسی طرح بدر کے بارے میں بھی ہے اعملوا ماشئتم قد غفرت لکم جو چاہو کرو میں نے تمہیں بخش دیا ۔ اب جو چاہو کرو میں یہ بات آتی ہے گویا انہیںہر گناہ کی بھی اجازت دے دی گئی یہ بات نہیں ہے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے گناہ کی قوت کم کردی اور نیکی کی قوت غالب کردی کہ وہ کر ہی نہیں سکیں گے ان کا دل ہی نہیں چاہے گا بُرائی کرنے کومیں نے تمہیں بخش دیاتو اسی طرح ہوا بھی کہ صحابہ کرام جو اہلِ بدر وغیرہ تھے اُ ن کے بارہ میں یہ ہے اللہ تعالیٰ نے اُن سے ایسے کام نہیں کروائے کہ جو ناراضگی کا سبب بنتے ہوں ۔بڑی تعداد تو اُن کی شہید ہی ہوئی ،یمامہ میں اوردوسری جگہوں پر جگہ جگہ جہاد پر جاتے رہے بہت بڑی تعداد کے بارے میں یہی ہے کہ وہ جہاد میں شہید ہوئی ہے۔ اب اُن کو بلانے والوں میں اہلِ بیعت رضوان بھی تھے سلیمان ابن صُرَد ہیں رضی اللہ عنہ انھوںنے بلایا ہے تو حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی رائے یہ ہوئی کہ میں ان کے بلانے پر چلا جاتا ہوں باقی حالات جو ہیں وہ بعد میں دیکھ لیے جائیں گے کہ کیا ہوتا ہے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے یہ رائے دی تھی کہ وہاں جائیں ہی نہیں تو معلوم یہ ہوتا ہے کہ انھوں نے اُس رائے کو تو نہیں مانا تو نہ ماننے کی وجہ ان کے ذہن میں یہی ہوگی کہ میں جارہا ہوں تو اس طرح جارہا ہوں کہ بیوی بچے، عورتیں یہ سب ساتھ ہیں گھر والے ساتھ ہیں میں کوئی لڑائی کے ارادے سے نہیں جا رہا تو خرابی ہوگی بھی تو کوئی حرج نہیں ہوگا ایسی (زیادہ) خرابی پیدا نہیں ہو سکتی کیونکہ عورتوں کو مارنا اور جو ہتھیار نہ اُٹھائے اس کو مار نا یہ نہیں ہے اسلام میں یہ اسلام کے خلاف ہے باغیوں پر بھی ہتھیار اُٹھانے میں پہل نہیں کی جاتی،اور اگر باغی بغاوت کر رہا ہو اور اُس کی بغاوت مسلح نہ ہو تو ہتھیار نہیں اُٹھائے جائیںگے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جو جو کارروائیاں کی ہیں اور جو احکام دئیے اپنی فوج والوںکو ان میں یہ بھی تھا کہ اگر کوئی آدمی ہتھیار ڈال دے تو اسے چھوڑ دو بھاگ جائے اسے چھوڑ دو زخمی ہو جائے مرہم پٹی کرو ، گھر میں (بھاگ کر) چلا جائے تو چھوڑ دو پیچھا ہی نہ کرو۔