ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2003 |
اكستان |
|
یزیدیوں کے اشکال کاجواب : اچھا اس میں یہ اشکالات پیدا کرتے ہیںلوگ کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ مکہ مکرمہ سے جن تاریخوں میں روانہ ہوئے تو اس تاریخ سے لے کر ان کی شہادت تک یہ تقریباً ایک مہینہ او رچند روزبنتے ہیں تو اتنے عرصہ میں اتنا فاصلہ طے نہیں کیا جا سکتا جو کہ سات سو میل یا آٹھ سو میل بنتا ہے تو یہ بات درست نہیں ہے ،فاصلے تو کافی کافی لشکر بھی بہت جلدی طے کر لیتے ہیں جیسے کہ بدر کا واقعہ آپ نے بہت سناہوگا پڑھا ہوگا یہ حضرت ابو سفیان کافروں کا قافلہ لیے ہوئے شام سے واپس آ رہے تھے ان کی سی آئی ڈی نے خبردی کہ مدینہ منورہ سے جب گزر وگے مکہ مکرمہ جانے کے لیے گویا شمال سے آرہے تھے اور جنوب کی طرف جا رہے تھے درمیان میں مدینہ شریف آتا تھا وہاں سے گزر کر جنوب میں مکہ مکرمہ پہنچنا تھا تو ان (ابوسفیان ) کو جب اطلاع ملی اپنے مخبِر سے تو انھوں نے فوراً مکہ مکرمہ آدمی بھیج دیااب یہ ادھر ہیں مدینہ منورہ درمیان میں ہے اُدھر مکہ مکرمہ جنوب میں اورٹیلی فون بھی نہیں تار بھی نہیں کوئی ذریعہ نہیں تو اس نے خبردی جاکر مکہ مکرمہ میں کہ ایسے ہمارا قافلہ جو ہے وہ نہیں بچے گا وہ لوٹ لیا جائیگااور مکہ والوں نے وہ خبر سُنتے ہی تیاری کی اور ایک ہزار آدمی تیار کرلیے جو مسلح تھے اور کیل کانٹے سے لیس وہ لوگ وہاں سے روانہ ہوئے اور بدر کے مقام پر آگئے جو مدینہ منورہ سے کوئی ستر(٧٠)میل کے فاصلہ پر ہے وہاں آگئے اس مقام سے اس قافلے کو گزرنا تھا تو جناب رسول اللہ ۖ نے جو ارادہ فرمایا اُس میں اتنی عُجلت کی کہ خود صحابہ کرام نے کہا کہ جناب ہم اپنا ساماں لے آئیں گھروں میں جاکر پھر روانہ ہوں تو رسول اللہ ۖ نے اُن کا انتظار نہیں فرمایا بہت سے صحابہ کرام وہاںشامل نہیں ہو سکے نہیں جا سکے کیونکہ آپ نے اس وقت روانہ جو ہونا تھا وہ ابوسفیان کے قافلے کے لیے روانہ ہونا تھا اب صرف مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کا جو فاصلہ ہے وہ تین سو میل کا ہے تو یہ کارروائیاں کتنی جلدی جلدی ہو رہی ہیں ۔اب رسول اللہ ۖ جب پہنچے ہیںبدر کے مقام پر تو معلوم یہ ہوا کہ قافلے نے تو راستہ بدل لیا ہے ،لمبا راستہ اختیار کرکے وہ سمندر کے کنارے کنارے چلا جائے گا جو گویا ''جدہ'' کی طرف راستہ جاتا ہے تو ایسے سمجھ لیجیے بدر سے د و سو میل کا فاصلہ ہے مکہ مکرمہ کا اور جب رسول اللہ ۖ صرف ستر میل کا فاصلہ طے کرکے بدر پہنچے ہیں تو آپ سے پہلے یہ مکہ والے (دو سو میل کا فاصلہ طے کرکے) پہنچ چکے تھے اور بدر کے مقام پر بہتر جگہ چن چکے تھے پھر رسول اللہ ۖ نے مشورہ کیا ہے کہ کیا رائے ہے ابھی ہم ان کے سامنے نہیںگئے اگر رائے ہوتو لڑیں اور رائے نہ ہو تو واپس چلے جائیں ۔سامنے جانے کے بعد پیچھے ہٹنا یہ تو ٹھیک نہیں ہوتا ۔ابھی ہم سامنے نہیںہیں ان کا فاصلہ ہے ہم سے تو وہاں جمع کرکے مشورہ لیا توصحابہ کرام نے مشورہ دیا کہ نہیں ،لڑیں گے۔ اب قافلوں کی رفتار آپ دیکھ لیں کہ کتنی تھی۔فوجوں کی رفتار کیا تھی وہ تو بہت تیز بنتی ہے اسی طریقہ پر جناب رسول اللہ ۖ نے ایک بہت بڑے قافلے کے