ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2003 |
اكستان |
|
حضرت کی دعا ء کے بعد ابھی جلسہ کے لیے فرش بچھائے جا رہے تھے کہ عشاء سے قبل ہی بارش ہوگئی (حاجی صاحب لاہر پوری) رُوحانی تصرف : میری لڑکی ریحانہ کی عمر تقریباً چار پانچ سال کی تھی گلسوے نکلے تمام چہرہ متورم ہوگیا تھا بخار بہت تیز تھا ڈاکٹر نے مرہم لگایا اور اس پر روئی رکھ کر پٹی باندھ دی تھی لڑکی بخار کی شدت کی وجہ سے غافل تھی دفعتہ اس نے چیخنا شروع کر دیا کہ مولانا داداآئے ہیں مولانا دادا آئے ہیں اُٹھ بیٹھی اور پٹی نوچنی شروع کر دی ہم لوگ پریشان ہوگئے کہ سرسام ہوگیا ہے لیکن ہماری حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی جبکہ ذرا دیر کے بعد نہ بخار تھا اور نہ ورم ۔ریحانہ بالکل اچھی تھی حالانکہ اس نے اپنے ہوش میں حضرت کو دیکھا بھی نہ تھا ۔(لاہرپوری صاحب) ایک حیر ت انگیز کرامت : مدینہ منورہ میں قبلہ دکن جانب ہے قبہ خضراء پور ب کے گوشہ میں واقعہ ہے پچھم جانب باب الرحمة کے متصل دارالامان میں حضرت درس دے رہے تھے قبۂ خضرا ء کی جالیاں سامنے تھیں تلامذہ میں سے ایک صاحب کو حیات النبی ۖکے متعلق کافی شکوک تھے دورانِ درس ایک بار انھوںنے جو نگاہیں اُٹھائیں تو سامنے نہ قبۂ خضراء تھا او ر نہ جالیاں بلکہ حضو ر بنی کریم ۖ خود تشریف فرماتھے انھوںنے کچھ کہنا چاہا (شاید دوسرے طلبہ کو متوجہ کرنا چاہتے ہوں ) توحضرت نے اشارے سے منع فرمایا۔ اب جو دیکھتے ہیں تو سب چیزیں اپنی سابقہ حالت پر تھیں ۔اس وقت مجھے مطلق یاد نہیں آرہا ہے کہ یہ واقعہ مجھ سے کہاں بیان کیا گیا ہندوستان میں یا مدینہ منورہ میں ۔(حاجی احمد حسین لاہر پوری) تالاب کی مچھلیاں کنارے پر آ گئیں : ایک مرتبہ حضرت نے ایک تالاب کے کنارے فضیلتِ ذکر پر تقریر فرمائی اور ارشاد فرمایا کہ دریا کی مچھلیاں تک اللہ تعالیٰ کے ذکر میں مشغول رہتی ہیں ۔یہ فرمانا تھا کہ سینکڑوں آدمیوں نے دیکھا کہ تالاب کی مچھلیاں تڑپ تڑپ کر کنارے پر آنے لگیں۔ یہ کونسا اسٹیشن ہے ؟ ادراک ِنسبت کا دلچسپ واقعہ : قاضی محمد زاہد الحسینی تحریر فرماتے ہیں کہ : حضرت شیخ الاسلام رحمة اللہ علیہ نے ١٩٤٦ء میں انتخابی دورہ فرماتے ہوئے صوبۂ سرحد کو اپنے قدم سے شرف بخشا ۔ مجھے ٢٧ جنوری ١٩٤٦ ء کو پتہ چلا کہ میں پشاور کے ارادہ سے جب نوشہرہ